تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی تمام استعمال کردہ اشیاء بابرکت تھیں، ان سے برکت حاصل کرنا شرعاً جائز ہے، البتہ ان اشیاء کی خود ساختہ تصاویر بطور نمائش استعمال کرنا خلاف شرع ہے، چنانچہ آج کل ایک مخصوس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اکثر دکانوں اور بسوں میں رسول اللہ ﷺ کی نعلین کی تصویر کے کارڈلیے پھرتے ہیں اور ان کے متعلق لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اسے گھر، دوکان یا دفتر میں رکھنے سے ہر قسم کی مصیبت اوربلاٹل جاتی ہے۔ تنگ دست کی تنگ دستی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے یہ سب جذباتی باتیں خلاف شریعت ہیں۔ تصویر سے اگراصل کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے تو ہر گھر میں بیت اللہ کی تصویر رکھ کر اس کا طواف کیا جاسکتا ہے اور وہاں نماز پڑھ کر لاکھ نماز کا ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے؟ حجر اسود کی تصویر رکھ کر اس کو بوسہ دیا جائے تاکہ مکہ مکرمہ جانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں سمجھ عطا فرمائے۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ نعلین حضرت انس ؓ کے پاس تھیں اور انھیں بطور وراثت تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ ان کے پاس ہی انھیں رہنے دیا گیا۔ حضرت انس ؓ اپنی عمر کے آخری حصے میں دمشق چلے گئے۔ وہاں رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب نعلین مبارک بھی نویں ہجری کے آغازمیں فتنہ تیمورلنگ کے وقت ضائع ہوگئیں۔ واللہ أعلم۔