تشریح:
1۔ مذکورہ حدیث متعدد مرتبہ پہلے بیان ہو چکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس مقام پر مقصود یہ ہے کہ بلا شبہ مکہ حرم ہے اور اس میں لڑائی حرام ہے لیکن اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غداری کی اور انھوں نے آپ کے ساتھ جو عہدو پیمان باندھا تھا اسے پامال کیا۔ بنو خزاعہ کے مقابلے میں بنو بکر کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جرم کی پاداش میں حرمت والے شہر اور حرمت والے مہینے میں ان کامارنا اور قتل کرنا اپنے رسول مقبولﷺکے لیے جائز قراردیا۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ دغابازی بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا بہت سخت ہے۔ بعض شارحین نے عنوان سے مناسبت اس طرح بیان کی ہے کہ اس حدیث میں امام کے کہنے پر جہاد کے لیے کوچ کرنے کا حکم ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ امام کی اطاعت کی جائے اور اس سے رو گردانی کر کے غداری کا ثبوت نہ دیا جائے یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اہل مکہ سے لڑائی کرنے میں ان سے غدر نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ وقت کے لیے حلال کردیا تھا اگر اللہ تعالیٰ اسے حلال نہ کرتا تو آپ ہر گز اس حرمت والی جگہ اور حرمت والے مہینےمیں جنگ نہ کرتے۔