تشریح:
1۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’جب مرد،عورت سے صحبت کرتا ہے تو مرد کا پانی عورت کے ہررگ وریشے میں سما جاتاہے،پھر ساتویں دن اللہ تعالیٰ اسے اکٹھا کرکے اس سے ایک صورت جوڑتا ہے۔‘‘ (فتح الباري:585/11 و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث:3330) 2۔ جدید طب کا دعویٰ ہے کہ چار ماہ سے پہلے ہی حمل میں جان پڑجاتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں روح سے مراد نفس ناطقہ مدرکہ ہے جو ختم نہیں ہوتا بلکہ موت کے وقت نکلتا ہے۔ اسے روح انسانی بھی کہتے ہیں اورقرآن کریم نے اسے " أَمْرِ رَبِّي " قراردیاہے۔ اس کے برعکس روح حیوانی پہلے ہی سے بلکہ نطفے کے اندر بھی موجود رہتی ہے۔ یہ روح حیوانی موت کے وقت ختم ہوجاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں چار ماہ سے پہلے حرکت، حرکت نمواور اور بڑھوتری ہوتی ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے فرشتوں کا وجود ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کی کئی ایک قسمیں ہیں جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان میں سے فرشتوں کی ایک قسم رحم مادر سے متعلق ہے، چنانچہ حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے عورت کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کررکھا ہے جو کہتا ہے:پروردگار! اب نطفہ پڑا۔ پروردگار اب یہ خون بن گیا۔ پروردگار! اب یہ لوتھڑا بن گیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش کے متعلق حکم کردیتاہے تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ یہ مرد ہے یا عورت؟ بدبخت ہے یا نیک بخت؟ اس کی روزی کیا ہے؟ اس کی عمر کیا ہے؟ پھر ماں کے پیٹ ہی میں اس بچے کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ لکھ دیاجاتاہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:318)