قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: الآيَةَ لاَ تَوْجَلْ لاَ تَخَفْ، وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ {رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي المَوْتَى} [البقرة: 260] الآيَةَ

3372. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ: {رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي المَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي} [البقرة: 260] وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ، لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ میں فرمایا ” اے میرے رب “ مجھے دکھا کہ تو مردوں کو زندہ کس طرح کرے گا لیکن یہ صرف میں اسلئے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہوجائے ۔ “ تک تشریح :مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جویہ سوال بارگاہ الہیٰ میں کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی قدرت میں کوئی شک تھا‘ معاذ اللہ ادنیٰ مومن کو بھی اس میں شک نہیں ہے تو ابراہیم علیہ السلام تو اللہ کے خاص خلیل تھے‘ ان کو کیونکر شک ہوسکتا تھا۔ غرض صرف یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے جلائے جانے پر کامل یقین تھا مگر انہوں نے یہ چاہا کہ یہ یقین اور بڑھ جائے یعنی مشاہدہ بھی کرلیں۔ اس لئے کہ عین الیقین کا مرتبہ علم الیقین سے بڑھا ہوا ہے۔ مشہور قول ہے ” شنیدہ کے بود مانند دیدہ “ حضرت حافظ ابن حجر اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ سوال محض مزید درمزیداطمینان قلب کے حصول کے لئے تھا جیسا کہ خود قرآن مجید میں یہ بہ تفصیل موجود ہے۔ روی الطبرانی وابن ابی حاتم من طریق السدی قال لما اتخذ اللہ ابراھیم خلیلا استاذنہ ملک الموت ان یبشرہ فاذن لہ فذکر قصۃ معہ فی کیفیۃ قبض روح الکافروالمومن۔ قال فقام ابراہیم یدعو ربہ رب ارنی کیف تحتی الموتیٰ حتی اعلم انی خلیلک اومن طریق علی بن ابی طلحۃ عنہ لا علم انک تحبنی اذا دعوتک والی ھذا جنح القاضی ابو بکر الباقلانی ( فتح الباری ) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تو ملک الموت یہ بشارت دینے کے لیے ان کے پاس آئے اور ساتھ ہی انہوں نے کافر و مومن کی روحوں کو قبض کرنے کی کیفیت بھی سنائی۔ یہ سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ پروردگار! مجھ کو بھی دکھلا کہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا۔ میری یہ دعا قبول کرتا کہ میں جان لوں کہ میں تیرا خلیل ہوں۔ دوسری روایت کے مطابق یہ ہے کہ ” تاکہ میں جان لوں کہ تو مجھ کو دوست رکھتا ہے اور میں جب بھی تجھ سے کچھ دعا کروں گا تو ضرور تو اسے قبول کرلے گا۔ “ مزید تفصیلات کے لئے فتح الباری کے اس مقام کا مطالعہ کیا جائے۔

3372.

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم حضرت ابراہیم ؑ سے شک کرنے کے زیادہ حق دار تھے جب انھوں نے کہا: اےمیرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ االلہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کیا: کیوں نہیں، (یقین ہے) لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرارآجائے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنا عرصہ رہتا جتنا حضرت یوسف ؑ رہے تو میں فوراً بلانے والے کی بات کو مان لیتا۔‘‘