1۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کا مردوں کو زندہ کرنے کا متعلق سوال کرنا شک کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ وہ مشاہدے اور معائنے سے علم میں اضافہ چاہتے ہیں تھے کیونکہ آنکھوں دیکھی چیز سے جو معرفت اور طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ استدلال سے نہیں ہوتی۔ دوسرے الفاظ میں وہ علم الیقین سے عین الیقن تک جانا چاہتے تھے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر براہیم ؑ کا سوال شک کی بنا پر ہوتا تو ہم اس شک کے زیادہ حق دار تھے لیکن جب ہمیں شک نہیں تو وہ شک نہ کرنے کے زیادہ حق دارہیں لیکن ان کا سوال مشاہدے کے لیے تھا تاکہ کسی سے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اپنا اظہار مافی ضمیر کر سکیں۔ کہا جاتا ہے۔’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔‘‘ 2۔ اسی طرح حضرت لوط ؑ جو اپنے تبلیغی مرکز "سدوم" میں غریب الدیار تھے ان کا یہاں کوئی کنبہ قبیلہ نہیں تھا بیوی بھی کافر اور بے وفا تھی ایسے حالات میں معزز مہمانوں کے ساتھ قوم نے جو طوفان بد تمیزی اٹھایا وہ انسانی عزت و شرافت کے بالکل برعکس تھا۔ اس وقت حضرت لوط ؑ نے ظاہری اسباب کے فقدان کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’کاش میرے پاس تمھارے مقابلے کے لیے قوت ہوتی یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے لیتا۔‘‘ یہ الفاظ سن کر فرشتےخاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔آپ اتنے پریشان نہ ہوں۔ ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ "قوۃ"سے مراد طاقت جو کسی کی مدد کے بغیر انھیں حاصل ہوا اور "رکن شدید" سے وہ قوت مراد ہے جو کسی دوسرے کی مدد سے حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے یہاں کوئی چیز اسباب سے خالی نہیں اللہ تعالیٰ تو ہر حال اور بہرمکان مددگار فریاد رس ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدح فرمائی کہ وہ تو زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ اس در دنیا میں اعانت صرف دو میں منحصر ہے اپنی اور غیر کی۔ اس لیے ان دو کا ذکر فرمایا۔ بہر حال حضرت لوط ؑ کا مذکورہ الفاظ کہنا ظاہری اسباب کے اعتبار سے تھا بصورت دیگر ایک نبی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر قوم یا قبیلے سے کیسے مدد طلب کر سکتا ہے؟ 3۔ حضرت یوسف ؑ کے متعلق آپ نے جس قسم کے جذبات کا اظہار فرمایا وہ اپنی تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا:آپ کے اندر تو صبر و استقلال بدرجہ اتم موجود تھا کسی نے سچ کہا ہے۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
بہر حال حضرت یوسف ؑ نے قید سے آزادی کو ٹھکرادیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بے گناہ ہی کی تحقیق نہ ہو جائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں کیونکہ میں کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ نہیں چاہتا کہ شاید اس معاملے میں یوسف ؑ کا بھی کچھ قصور تھا بہر حال رسول اللہ ﷺ نے حضرت یوسف ؑ کے صبر و تحمل اور ثابت قدمی و متانت کی تعریف کی ہے کہ اتنا عرصہ قید میں رہنے کے باوجود جلدی سے کام لے کر اپنی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔