تشریح:
1۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سیدنایوسف ؑ کی تعریف فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنی براءت کا صاف شاہی اعلان ہوئے بغیر جیل خانہ چھوڑنا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت یوسف ؑ نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ’’اے میرےپروردگار! جس چیز کی طرف مجھے مصر کی عورتیں بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے قید ہی پسند ہے‘‘ (یوسف:12۔33) 2۔حضرت یوسف ؑ نے جب خواب کی تعمیر اور اس سے بچنے کی تدبیر بتائی عزیز مصر عش عش کر اٹھا۔ کہنے لگا۔ ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہو سکوں لیکن یوسف ؑ نے قیدسے باہرآنے سے انکار کر دیا، مقصد یہ تھا کہ جب تک اس جرم کی تحقیق نہ کی جائے اور پوری طرح میری بریت واضح نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ تک نہ رہے کہ شاید اس معاملے میں یوسف کا بھی کچھ قصور تھا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے انکسار اور تواضع کے طور پر ایسا فرمایا۔ بصورت دیگر آپ تو عزم و استقلال کے پہاڑ تھے۔۔۔ صلی اللہ علیه وسلم ۔