تشریح:
1۔اس مقام پر یہ اشکال ہے کہ امام بخاری ؒ کو حضرت عروہ بارقی ؓ کی کون سی حدیث مقصود ہے؟ اگرگھوڑوں کی حدیث مقصود ہے تو وہ بلاشبہ موصول ہے مگر اس کو عنوان سے کوئی مناسبت نہیں اور اگر بکری والی حدیث مقصود ہے تو عنوان کے مطابق تو ہے مگر وہ موصول نہیں کیونکہ شبیب کے قبیلے والے مجہول ہیں۔اس کاجواب اس طرح دیا گیا ہے کہ قبیلے والے متعدد اشخاص تھے وہ سب جھوٹ بولیں یہ نہیں ہوسکتا،نیز جب یہ معلوم ہے کہ شبیب صرف عادل راوی سے روایت کرتا ہے تو یقین کیا جائے گا کہ انھوں نے قبیلے کے عادل راویوں ہی سے روایت لی ہے۔بہرحال یہ روایت متصل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے ایک معجزے کا بیان ہے کہ عروہ باقی کے لیے آپ کی دعا قبول ہوئی۔اگر مٹی بھی خریدتے تو وہ بھی سونے کے بھاؤ فروخت ہوتی تھی اور انھیں اس سے کافی نفع ہوتا تھا۔یہ نبوت کی دلیل ہے۔2۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عروہ بارقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سودے کو نہ صرف برقراررکھا بلکہ اسے پسند فرمایا اور دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کی خریدوفروخت کے معاملات میں برکت عطا فرمائے۔3۔معلوم ہوا کہ منافع کی شرح میں کوئی تعین نہیں ہے۔اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نےقیمت خرید کے برابر نفع وصول کیا۔واللہ أعلم۔4۔گھوڑوں والی حدیث بھی عنوان کے عین مطابق ہے کہ آج جدید اسلحے کی فراوانی کے باوجود بھی فوج میں گھوڑے کی اہمیت باقی ہے۔بہرحال دونوں احادیث متصل ہیں اور عنوان کے مطابق ہیں۔واللہ المستعان۔