تشریح:
1۔جب کچھ مسلمان ہجرت کرکے مدینہ طیبہ چلے آئے تو کفارمکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگرمحمد ﷺ مکہ مکرمہ میں ہمارے ہاتھوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر یہ خطرہ ہمارے کنڑول میں نہیں رہے گا، لہذا اس کا علاج فوری طور پر سوچناچاہیے۔ اس غرض سے انھوں نے دارلندوہ میں ایک میٹنگ رکھی اور شرکائے مجلس سے اس کے متعلق تجاویز اور آراء طلب کیں۔ کسی نے کہا: اسے پایہ زنجیر کرکے قید کردیا جائے۔ شیطان، جو اس مجلس میں انسانی روپ دھار کر موجود تھا، کہنے لگا: یہ تجویز درست نہیں کیونکہ اس کے پیروکار اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اسے چھڑانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسرے نے کہا کہ اسے یہاں سے جلا وطن کردیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم روز کی بک بک سے نجات پاجائیں گے۔ شیطان نے کہا: یہ تجویز بھی درست نہیں کیونکہ اس شخص کے کلام وبیان میں اتناجادو ہے کہ وہ جہاں جائے گا وہاں اس کے جاں نثار پیدا ہوجائیں گے پھر وہ انھیں لے کر کسی وقت بھی آپ پرحملہ آور ہوسکتا ہے بعد میں ابوجہل بولا: ہم سب قبائل میں سے ایک ایک جوان لے لیں اور یہ سب مل کرمحمد ﷺ پر یکبار حملہ کردیں اور اسے جان سے مارڈالیں۔ اب یہ توظاہرہے کہ بنو عبد مناف سب قبیلوں سے لڑائی کاخطرہ مول نہیں لے سکتے، لامحالہ خون بہا کا فیصلہ ہوگا جو سب قبائل مل کرادا کریں گے۔ یہ سن کرشیطان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور اس نے اس رائے کو بہت پسند کیا۔ پھر اس کام کے لیے وقت بھی اسی مجلس میں طے ہوگیا کہ فلاں رات یہ سب نوجوان مل کر محمد ﷺ کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور جب وہ باہرنکلے تو یکبارگی اس پر حملہ کرکے اس کا کام تمام کردیں۔ ادھر یہ مشورے ہورہے تھے ادھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے نبی کو اس مجلس کی کارروائی سے مطلع کردیا اورآپ کو ہجرت کی اجازت دے دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی! وہ وقت یاد کریں جب کافر آپ کے متعلق خفیہ تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا مارڈالیں یا جلاوطن کردیں، وہ بھی تدبیریں کررہے تھے ور اللہ بھی تدبیرکررہاتھا اور اللہ ہی سب سے اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘ (الأنفال:30/8) چنانچہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی رات قاتلوں کے گروہ نے آپ کا محاصرہ کرنے کا پروگرام بنارکھا تھا۔ وہ بروقت اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ جب صبح تک آپ برآمد نہ ہوئے تو وہ خود اندر داخل ہوگئے۔ کیادیکھتے ہیں کہ گھر میں سیدنا علی ؓ کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ آپ جاچکے ہیں تو ان کی برہمی کی کوئی انتہا نہ رہی کیونکہ اللہ نے اس پورے ہاؤس کی پاس کردہ تدابیرکو بری طرح ناکام بنادیا تھا۔ 2۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے قبل تین مقامات پر اختصار سے اسے بیان کیا ہے۔ چنانچہ حدیث:476۔ میں اس کا پہلاحصہ بیان ہوا ہے۔ پھرحدیث 2263۔ میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ نے بنودیل کے ایک آدمی کو ملازم رکھا جو انھیں ساحل سمندر کے راستے سے لے گیا۔ اور حدیث 2297 میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیاہے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا، اس وقت سے اپنے والدین کو دین اسلام کے تابع پایا اور ابوبکر ؓ چار ماہ تک اپنی بکریوں کو کیکر کے پت کھلاتے رہے۔ اب اس مقام پر امام بخاری ؒ نے پوری حدیث کو تفصیل سے بیان کیاہے۔ 3۔ تاریخ اسلام میں ہجرت کی بڑی اہمیت ہے۔ رسول اللہ ﷺ 27 سفر 13نبوت بمطابق 12ستمبر 622ء بروز جمعرات حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ سے نکلے۔ مکے سے چار پانچ میل کے فاصلے پر کوہ نور ہے۔ وہاں جاکر آپ نے تین دن تک ایک غار میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد یکم ربیع الاول بمطابق 16ستمبر 622ء بروز سوموار آپ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ سفر جاری رکھنے کے بعد 8ربیع الاول 13نبوت بمطابق 23ستمبر 622ء بروز سوموار مدینہ سے متصل قباء نامی بستی میں پہنچ گئے۔ جمعرات تک یہاں آرام فرمایا۔ اس دوران میں آپ نے مسجد قباء کی بنیادرکھی۔ 12ربیع الاول 1ہجری جمعہ کے دن آپ قباء سے روانہ ہوئے۔ بنوسالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہوگیا۔ آپ نے اس مقام پر مسلمانوں کے ہمراہ جمعہ اداکیا۔ فراغت کے بعد آپ یثرب کی جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے جسے مدینہ طیبہ کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے ہاں قیام فرمایا اور مسجد نبوی کی بنیاد رکھی جس کا مذکورہ حدیث کے آخر میں ذکر ہے۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ نے جس مسلمان کا شعر پڑھاتھا وہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ ؓ ہیں جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ حدیث ہجرت کے متعلق یہ چند وضاحتی نوٹ ہیں۔ اس کی تفصیلات تو بہت زیادہ ہیں۔ قارئین کرام کتب سیرت کی طرف رجوع کریں۔ واللہ المستعان۔