قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ ؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ وَقَالَ أَبُو مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ فِي المَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنَّهَا اليَمَامَةُ، أَوْ هَجَرُ، فَإِذَا هِيَ المَدِينَةُ يَثْرِبُ»

3906. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَالِكٍ المُدْلِجِيُّ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ سُرَاقَةَ بْنَ جُعْشُمٍ يَقُولُ: جَاءَنَا رُسُلُ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، يَجْعَلُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، دِيَةَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، مَنْ قَتَلَهُ أَوْ أَسَرَهُ، فَبَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ قَوْمِي بَنِي مُدْلِجٍ، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، حَتَّى قَامَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ جُلُوسٌ، فَقَالَ يَا سُرَاقَةُ: إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ آنِفًا أَسْوِدَةً بِالسَّاحِلِ، أُرَاهَا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ، قَالَ سُرَاقَةُ: فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ هُمْ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُمْ لَيْسُوا بِهِمْ، وَلَكِنَّكَ رَأَيْتَ فُلاَنًا وَفُلاَنًا، انْطَلَقُوا بِأَعْيُنِنَا، ثُمَّ لَبِثْتُ فِي المَجْلِسِ سَاعَةً، ثُمَّ قُمْتُ فَدَخَلْتُ فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي أَنْ تَخْرُجَ بِفَرَسِي، وَهِيَ مِنْ وَرَاءِ أَكَمَةٍ، فَتَحْبِسَهَا عَلَيَّ، وَأَخَذْتُ رُمْحِي، فَخَرَجْتُ بِهِ مِنْ ظَهْرِ البَيْتِ، فَحَطَطْتُ بِزُجِّهِ الأَرْضَ، وَخَفَضْتُ عَالِيَهُ، حَتَّى أَتَيْتُ فَرَسِي فَرَكِبْتُهَا، فَرَفَعْتُهَا تُقَرِّبُ بِي، حَتَّى دَنَوْتُ مِنْهُمْ، فَعَثَرَتْ بِي فَرَسِي، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، فَقُمْتُ فَأَهْوَيْتُ يَدِي إِلَى كِنَانَتِي، فَاسْتَخْرَجْتُ مِنْهَا الأَزْلاَمَ فَاسْتَقْسَمْتُ بِهَا: أَضُرُّهُمْ أَمْ لاَ، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ، فَرَكِبْتُ فَرَسِي، وَعَصَيْتُ الأَزْلاَمَ، تُقَرِّبُ بِي حَتَّى إِذَا سَمِعْتُ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ لاَ يَلْتَفِتُ، وَأَبُو بَكْرٍ يُكْثِرُ الِالْتِفَاتَ، سَاخَتْ يَدَا فَرَسِي فِي الأَرْضِ، حَتَّى بَلَغَتَا الرُّكْبَتَيْنِ، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، ثُمَّ زَجَرْتُهَا فَنَهَضَتْ، فَلَمْ تَكَدْ تُخْرِجُ يَدَيْهَا، فَلَمَّا اسْتَوَتْ قَائِمَةً، إِذَا لِأَثَرِ يَدَيْهَا عُثَانٌ سَاطِعٌ فِي السَّمَاءِ مِثْلُ الدُّخَانِ، فَاسْتَقْسَمْتُ بِالأَزْلاَمِ، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ، فَنَادَيْتُهُمْ بِالأَمَانِ فَوَقَفُوا، فَرَكِبْتُ فَرَسِي حَتَّى جِئْتُهُمْ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي حِينَ لَقِيتُ مَا لَقِيتُ مِنَ الحَبْسِ عَنْهُمْ، أَنْ سَيَظْهَرُ أَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ جَعَلُوا فِيكَ الدِّيَةَ، وَأَخْبَرْتُهُمْ أَخْبَارَ مَا يُرِيدُ النَّاسُ بِهِمْ، وَعَرَضْتُ عَلَيْهِمُ الزَّادَ وَالمَتَاعَ، فَلَمْ يَرْزَآنِي وَلَمْ يَسْأَلاَنِي، إِلَّا أَنْ قَالَ: «أَخْفِ عَنَّا». فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَكْتُبَ لِي كِتَابَ أَمْنٍ، فَأَمَرَ عَامِرَ بْنَ فُهَيْرَةَ فَكَتَبَ فِي رُقْعَةٍ مِنْ أَدِيمٍ، ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَ الزُّبَيْرَ فِي رَكْبٍ مِنَ المُسْلِمِينَ، كَانُوا تِجَارًا قَافِلِينَ مِنَ الشَّأْمِ، فَكَسَا الزُّبَيْرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ ثِيَابَ بَيَاضٍ، وَسَمِعَ المُسْلِمُونَ بِالْمَدِينَةِ مَخْرَجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ، فَكَانُوا يَغْدُونَ كُلَّ غَدَاةٍ إِلَى الحَرَّةِ، فَيَنْتَظِرُونَهُ حَتَّى يَرُدَّهُمْ حَرُّ الظَّهِيرَةِ، فَانْقَلَبُوا يَوْمًا بَعْدَ مَا أَطَالُوا انْتِظَارَهُمْ، فَلَمَّا أَوَوْا إِلَى بُيُوتِهِمْ، أَوْفَى رَجُلٌ مِنْ يَهُودَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِهِمْ، لِأَمْرٍ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَبَصُرَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مُبَيَّضِينَ يَزُولُ بِهِمُ السَّرَابُ، فَلَمْ يَمْلِكِ اليَهُودِيُّ أَنْ قَالَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا مَعَاشِرَ العَرَبِ، هَذَا جَدُّكُمُ الَّذِي تَنْتَظِرُونَ، فَثَارَ المُسْلِمُونَ إِلَى السِّلاَحِ، فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ الحَرَّةِ، فَعَدَلَ بِهِمْ ذَاتَ اليَمِينِ، حَتَّى نَزَلَ بِهِمْ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَذَلِكَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الأَوَّلِ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ لِلنَّاسِ، وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامِتًا، فَطَفِقَ مَنْ جَاءَ مِنَ الأَنْصَارِ - مِمَّنْ لَمْ يَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُحَيِّي أَبَا بَكْرٍ، حَتَّى أَصَابَتِ الشَّمْسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى ظَلَّلَ عَلَيْهِ بِرِدَائِهِ، فَعَرَفَ النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَلَبِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، وَأُسِّسَ المَسْجِدُ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى، وَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ، فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرَكَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، وَهُوَ يُصَلِّي فِيهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَكَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ، لِسُهَيْلٍ وَسَهْلٍ غُلاَمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي حَجْرِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ: «هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ المَنْزِلُ». ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الغُلاَمَيْنِ فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ، لِيَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا، فَقَالاَ: لاَ، بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّى ابْتَاعَهُ مِنْهُمَا، ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا، وَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ اللَّبِنَ فِي بُنْيَانِهِ وَيَقُولُ، وَهُوَ يَنْقُلُ اللَّبِنَ: هَذَا الحِمَالُ لاَ حِمَالَ خَيْبَرْ، هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرْ، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّ الأَجْرَ أَجْرُ الآخِرَهْ، فَارْحَمِ الأَنْصَارَ، وَالمُهَاجِرَهْ فَتَمَثَّلَ بِشِعْرِ رَجُلٍ مِنَ المُسْلِمِينَ لَمْ يُسَمَّ لِي قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَلَمْ يَبْلُغْنَا فِي الأَحَادِيثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمَثَّلَ بِبَيْتِ شِعْرٍ تَامٍّ غَيْرَ هَذَا البَيْتِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔

3906.

حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم ؓ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے جو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے بارے میں اس امر کا اعلان کر رہے تھے کہ جو شخص انہیں قتل کر دے یا زندہ گرفتار کر کے لائے تو ہر ایک کے بدلے ایک سو اونٹ اسے بطور انعام دیے جائیں گے، چنانچہ میں ایک وقت اپنی قوم بنو مدلج کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک آدمی آیا اور ہمارے پاس کھڑا ہو گیا جبکہ ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا: اے سراقہ! میں نے ابھی ابھی ساحل پر چند لوگ دیکھے ہیں۔ میں انہیں محمد اور ان کے ساتھی خیال کرتا ہوں۔ سراقہ کہتے ہیں: میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ہیں مگر میں نے ایسے ہی اس سے کہہ دیا: وہ نہیں ہوں گے بلکہ تو نے فلاں فلاں کو دیکھا ہو گا جو ابھی ہمارے سامنے سے گئے ہیں جو اپنا گم شدہ کوئی جانور تلاش کر رہے تھے۔ اس کے بعد میں تھوڑی دیر تک اس مجلس میں ٹھہرا رہا، پھر کھڑا ہوا اور اپنے گھر جا کر خادمہ سے کہا کہ وہ میرا گھوڑا لے کر باہر جائے اور اس کو ٹیلے کے پیچھے لے کر کھڑی رہے۔ پھر میں نے اپنا نیزہ سنبھالا اور مکان کی پچھلی جانب سے نکلا۔ نیزے کی نوک سے زمین پر خط لگا رہا تھا اور اس کا اوپر والا حصہ نیچے کیے ہوئے تھا۔ اس طرح میں اپنے گھوڑے کے پاس آیا اور اس پر سوار ہو گیا۔ پھر اسے ہوا کی طرح سرپٹ دوڑایا تاکہ مجھے جلدی پہنچائے۔ لیکن جب میں ان کے قریب ہو گیا تو میرے گھوڑے نے ایسی ٹھوکر کھائی کہ میں گھوڑے سے گر پڑا۔ میں کھڑا ہوا اور ترکش کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس میں سے تیر نکال کر فال لی کہ میں ان لوگوں کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں؟ تو وہ بات سامنے آئی جو مجھے ناگوار تھی، مگر میں پھر بھی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کی فال کو تسلیم نہ کیا۔ میرا گھوڑا مجھے لے کر پھر اتنا قریب پہنچ گیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی قراءت سنی۔ آپ کسی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے جبکہ حضرت ابوبکر ؓ اِدھر اُدھر بہت دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور خود میں بھی اس کے اوپر سے گر پڑا۔ پھر میں نے گھوڑے کو ڈانٹا تو بڑی مشکل سے اس کے پاؤں نکلے، مگر جب وہ سیدھا ہوا تو اس کے اگلے دونوں پاؤں سے دھویں کی طرح غبار نمودار ہوا جو آسمان تک پھیل گیا۔ میں نے پھر تیروں سے فال لی تو وہی نکلا جسے میں برا جانتا تھا۔ آخر میں نے انہیں امان کے ساتھ آواز دی تو وہ ٹھہر گئے۔ پھر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا اور جب مجھے ان تک پہنچنے میں رکاوٹیں پیش آئیں تو میرے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہ ﷺ کا ضرور بول بالا ہو گا، چنانچہ میں نے آپ کو بتایا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق سو اونٹ مقرر کر رکھے ہیں۔ پھر میں نے وہ باتیں بیان کیں جو وہ لوگ آپ کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ بعد ازاں میں نے انہیں زادِ راہ اور کچھ سامان پیش کیا، لیکن انہوں نے نہ تو میرے مال میں کمی کی اور نہ کچھ مانگا ہی، البتہ یہ ضرور کہا: ’’ہمارا حال لوگوں سے پوشیدہ رکھیں۔" میں نے ان سے درخواست کی کہ میرے لیے ایک تحریرِ امن لکھ دیں۔ آپ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا جس نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر سند امان لکھ دی اور پھر رسول اللہ ﷺ آگے روانہ ہو گئے۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کی ملاقات سوداگر مسلمانوں کی ایک جماعت سے ہوئی جو حضرت زبیر بن عوام ؓ کی زیر قیادت ملک شام سے آ رہی تھی۔ حضرت زبیر ؓ نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کو سفید پوشاک پہنائی۔ ادھر مسلمان اہل مدینہ کو رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے کی خبر پہنچی تو وہ لوگ مقام حرہ تک ہر روز صبح آپ کے استقبال کے لیے آتے اور آپ کا انتظار کرتے، پھر دوپہر کی گرمی انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیتی، چنانچہ وہ ایک روز حسب معمول بہت انتظار کے بعد واپس آ گئے اور اپنے گھروں میں بیٹھے تھے کہ ایک یہودی کسی کام کی خاطر، اپنے قلعوں میں سے کسی قلعے پر چڑھا تو اس نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کو سفید لباس میں ملبوس دیکھا۔ جس قدر آپ نزدیک ہو رہے تھے اتنا ہی دور سے سراب کم ہوتا جاتا تھا تب اس یہودی سے نہ رہا گیا اور وہ فورا بآواز بلند پکار اٹھا: اے جماعت عرب! یہ ہے تمہارا بلند مرتبہ معزز سردار جس کا تم شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیار لے کر آپ کے استقبال کو دوڑے، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کو مقام حرہ کے پیچھے ملے، انہیں ساتھ لیے دائیں مڑے، پھر انہوں نے بنو عمرو بن عوف کے ہاں پڑاؤ کیا۔ یہ واقعہ ماہ ربیع الاول سوموار کے دن کا ہے۔ الغرض حضرت ابوبکر ؓ کھڑے ہو کر لوگوں سے ملنے لگے اور رسول اللہ ﷺ خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ وہ انصاری جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا تھا وہ حضرت ابوبکر ؓ ہی کو سلام کرتے۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ پر دھوپ آ گئی اور حضرت ابوبکر ؓ نے کھڑے ہو کر آپ پر اپنی چادر کا سایہ کیا تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو پہچانا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے ہاں تقریبا دس راتیں قیام پذیر رہے۔ آپ نے وہیں اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی اساس تقویٰ پر ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ چل رہے تھے۔ آپ کی اونٹنی مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اس میں اس وقت کچھ مسلمان نماز پڑٖھتے تھے اور وہ سہل اور سہیل دو یتیم بچوں کی کھجوروں کا کھلیان تھا جو اسعد بن زرارہ کی کفالت میں تھے۔ جب آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارا ان شاءاللہ یہی مقام ہو گا۔‘‘  پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں بچوں کو بلایا اور ان سے کھلیان کی قیمت معلوم کی تاکہ اسے مسجد بنا سکیں۔ ان دونوں نے کہا: ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے بلکہ اللہ کے رسول! ہم یہ زمین آپ کو ہبہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ہبہ منظور نہ فرمایا بلکہ قیمت دے کر ان سے وہ جگہ خرید لی اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر میں رسول اللہ ﷺ سب لوگوں کے ساتھ اینٹیں اٹھاتے اور فرماتے: ’’یہ بوجھ اٹھانا کوئی خیبر کا بوجھ اٹھانا نہیں۔ اے ہمارے رب! یہ تو باعث ثواب اور پاکیزہ کام ہے۔‘‘ نیز آپ فرماتے: ’’اے اللہ! ثواب تو آخر ہی کا ثواب ہے۔ اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔‘‘  راوی کہتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مسلمان کا شعر پڑھا جس کے نام کا مجھے علم نہیں۔ ابن شہاب نے کہا: احادیث میں ہمیں معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بیت کے علاوہ کسی کا پورا شعر پڑھا ہو۔