تشریح:
1۔ حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ روایت مرسل ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ کے انر جانا ثابت نہیں، پھر وہ کعبے کے اندر کے حالات کیونکر بیان کرسکتے ہیں؟ لیکن امام مسلم ؒ نے ابن جریج کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ روایت حضر ت اسامہ ؓ بن زید سے سنی ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3237 (1330)) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر صرف دعا کی ہے جبکہ حضرت بلال ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے دورکعت نماز بھی پڑھی تھی۔ اس موقع پر سیدنا بلال ؓ کی بات کااعتبار کیا یا ہے اور حضرت اسامہ بن زید ؓ کی بات کو لاعلمی پر محمول کیا گیا ہے، حالانکہ یہ دونوں حضرات رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ کےاندر موجود تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے تو آپ نے دعا شر وع کی، حضرت اسامہ بھی د عا میں مشغول ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا سے فراغت کے بعد دورکعت ادا فرمالیں، لیکن حضرت اسامہ اپنی دعا ہی میں منہمک ہے۔ چونکہ حضرت بلال ؓ نے آپ کی نماز کامشاہدہ کیا، اس لیے اس مشاہدے کی وجہ سے، اسے ترجیح حاصل ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ قبلے کے متعلق تو معلوم ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ نے ’’یہی قبلہ ہے‘‘ کے الفاظ کیوں ارشادفرمائے؟اس کے متعلق علماء کی کئی ایک توجہیات حسب ذیل ہیں: ©۔ بیت المقدس سے تحویل قبلہ کاحکم ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اب قبلے کا حکم بیت اللہ پر ثابت ہوچکا ہے۔ اس میں اب نسخ نہیں ہوگا۔ ©۔ اس وضاحت میں ان لوگوں کا حکم بتایا جو بیت اللہ کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ ان کے لیے بعینہ بیت اللہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے برعکس جو بیت اللہ سے غائب ہیں وہ اپنے اجہتاد سے بھی کام لے سکتے ہیں۔ ©۔ امام کے لیے کھڑے ہونے کی تلقین فرمائی کہ مواجہ بیت اللہ میں کھڑا ہو۔ باقی جوانب میں بھی امام کاکھڑا ہوناجائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ بیت اللہ کے سامنے کھڑا ہو۔ ©۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دوران نماز میں مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیاہے۔ (البقرة:149/2) رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ سے وضاحت فرمائی کہ قبلہ صرف بیت اللہ ہے، اس کے اردگرد جو مسجد حرام ہے یا مکہ مکرمہ یا حرم کی حدود میں یہ قبلہ نہیں ہیں۔ نماز کے لیے صرف بیت اللہ کی طرف منہ کیا جائے نہ کہ مسجد حرام کی طرف جو بیت اللہ کے ارد گرد کا علاقہ ہے۔ (فتح الباری:650/1) 3۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مقصود ہے کہ مقام ابراہیم کی طرف منہ کرناضروری نہیں، اصل قبلہ تو بیت اللہ ہے، لیکن ان الفاظ سے حضرت ابن عباس ؓ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بیت اللہ کے اندر نماز نہیں پڑھنی چاہیے، کیونکہ اس طرح پورے بیت اللہ کا استقبال نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ حصے کی طرف پیشت ہوجاتی ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہے۔ (فتح الباری:649/1)