تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ افضیلت کا حصول غزوہ بدر میں شرکت کی وجہ سے ہے۔
2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ فرشتے دوسری جنگوں میں بھی شریک ہوئے تھے لیکن غزوہ بدر میں انھوں نے باقاعدہ لڑائی کی اور دیگر فرشتوں سے افضل قرارپائے۔
3۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں کے شامل ہونے کی بشارت دی، پھر تین ہزار کی، جب گھبراہٹ ہوئی تو پانچ ہزار فرشتوں کے شامل ہونے کی خوشخبری دی جبکہ ایک فرشتہ ہی ان کا کام تمام کرنے کے لیے کافی تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دی اور انسانی شکل میں فرشتے بھیج کر ان کی مدد فرمائی۔
4۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: فرشتوں کے ہاتھوں جو کافر مارے جاتے وہ دوسرے مقتولوں سے مختلف ہوتے تھے ان کی گردنوں اور جوڑوں پر داغ ہوتے تھے۔ (فتح الباري:388/7) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ایک مسلمان کافر کو مارنے کے لیے دوڑ رہا تھا اتنے میں اس پر کوڑا برسنے کی آواز آئی اور کافر گرتے ہی مرگیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تیسرے آسمان سے اللہ کی مدد آئی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث:4588۔(1763))