تشریح:
1۔ جب جبیر بن مطعم ؓ بدری قیدیوں میں قید ہو کر مدینہ طیبہ آئے تو انھیں مسجد نبوی کے قریب رکھا گیا۔ اس وقت انھوں نے نماز مغرب میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت سنی تو اس سے متاثر ہوئے۔ آئندہ مسلمان ہونے کے لیے یہی قرآءت سبب بنی۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث:3050۔) ایک روایت کے مطابق حضرت جبیر مطعم ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہﷺ نے کچھ آیات تلاوت فرمائیں تو مارے خوف کے میرا دل اڑنے لگا۔ وہ آیات یہ تھیں: ﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (35) أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ (36) أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ﴾ ’’کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی پیدا ہو گئے ہیں۔ یا وہ (خود اپنے) خالق ہیں یا آسمانوں اور زمین کو انھوں نے پیدا کیا ہے؟بلکہ وہ اللہ پر یقین نہیں رکھتے۔یا ان کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں؟ یا یہ ان خزانوں کے نگران ہیں۔‘‘ (الطور :35-36 و صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4853)
2۔رسول اللہ ﷺ نے مطعم بن عدی کے متعلق جن جذبات کا اظہار فرمایا: اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ طائف سے واپس لوٹے تو مطعم کی پناہ میں داخل ہوئے۔ اس نے آپ کو بچانے کے لیے اپنے چاروں بیٹوں کو مسلح کر کے بیت اللہ کے کونوں پر کھڑا کردیا تھا جس سے قریش ڈر گئے اور آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور کہنے لگے: ہم مطعم کی پناہ نہیں توڑ سکتے نیز انھوں نے وہ عہد نامہ ختم کرانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا جو قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف کیا تھا۔ (فتح الباري:404/7)
3۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے۔ یہ شہادت بلا وجہ اور مظلوما نہ تھی۔ آپ نے عدم تشدد کی پالیسی اختیار کی، فسادیوں کے خلاف تلوارنہیں اٹھائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا انتقام لیا، جب جمل، صفین اور نہر وان میں ہزاروں مسلمان مارے گئے بلکہ اکثر بدری صحابہ کرام موت کا لقمہ بن چکے تھے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہ سب بدری صحابہ اس فتنے کا شکار ہوئے بلکہ اس وقت اسے ان کی اموات شروع ہو گئیں اور وہ بہت جلد ختم ہو گئے چنانچہ بدری صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہیں جو واقعہ حرہ سے چند سال پہلے فوت ہوئے۔ تیسرے فتنے نے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وجود ہی کو ختم کردیا۔ اس کے بعد کوئی صحابی زندہ نہ رہا۔ (فتح الباري:405/7)