قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَرَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4210. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقِيلَ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ قَالَ فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ فَقَالَ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا فَقَالَ انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ

مترجم:

4210.

حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن فرمایا: ’’میں کل یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالٰی فتح عطا کرے گا۔ وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، نیز اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ لوگ ساری رات اس امر میں غور کرتے رہے کہ ان میں سے کس کو جھنڈا دیا جائے گا؟ جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کو امید تھی کہ آپ ﷺ جھنڈا اسے دیں گے لیکن آپ نے فرمایا: ’’علی بن ابی طالب کہاں ہے؟‘‘  لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کی آںکھوں میں شدید درد ہے۔ آپ نے ان کی طرف کسی آدمی کو بھیجا، چنانچہ انہیں لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں لب مبارک ڈالا اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ تندرست ہو گئے، گویا ان کی آنکھوں میں کبھی درد ہی نہیں ہوا۔ پھر آپ نے انہیں جھنڈا دے دیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں ان (یہودیوں) سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان ہو جائیں؟ آپ ؑ نے فرمایا: ’’تم سیدھے اپنی راہ پر چلتے جاؤ یہاں تک کہ تم ان کے میدان میں اترو تو ان کو دعوتِ اسلام دو اور اللہ کے جو حقوق ان کے ذمے فرض ہیں انہیں ان سے آگاہ کرو۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعے سے اللہ تعالٰی کسی ایک آدمی کو ہدایت سے ہمکنار کر دے تو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘