تشریح:
1۔ اسلام کامقصود حقیقی اشاعت دین ہے، جنگ وقتال مقصود حقیقی نہیں۔ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف اور صلح وامن کو پسند کرتا ہے۔
2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ کافر کی تالیف قلبی کرنا تاکہ وہ مسلمان ہوجائے اسے قتل کرنے سے بہتر ہے۔ (فتح الباري:597/7)
3۔ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے یہود کو پہلے دعوتِ اسلام دی لیکن انھوں نے اسے مستردکردیا اوراپنے بادشاہ مرحب کی زیر کمان مسلمانوں کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔ میدان جنگ میں اُترکر پہلے مرحب نے دعوتِ مبارزت دی اور یہ کہتا ہوا نمودار ہوا: ’’خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیار پوش، بہادر اور تجربہ کار، جب جنگ شعلہ زن ہو۔‘‘ اس کے مقابلے میں حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے چچا حضرت عامر ؓ نمودار ہوئے اور فرمایا: ’’خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں، ہتھیار پوش، شہ زور اور جنگجو۔‘‘ پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا لیکن حضرت عامر ؓ میدان میں کام آگئے۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ مقابلے کے لیے تشریف لائے اور یہ اشعار پڑھتے ہوئے میدان میں اترے:’ ’میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر(شیر) رکھا ہے۔ جنگل کے شیر کی طرح خوفناک ہوں۔ میں انھیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا، یعنی اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے مرحب کے سرپرایسی تلوار ماری کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ کے ہاتھوں قلعہ فتح ہوا۔ اسی قلعہ سے حضرت صفیہ ؓ کوقید کیا گیا تھا۔ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث:4678(1807))