تشریح:
1۔5ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں ان شرائط پر کفار مکہ سے صلح کر لی۔ کہ اس سال مسلمان عمرہ کیے بغیر ہی واپس چلے جائیں اور وہ آئندہ سال عمرہ کریں اس کے علاوہ جب مکہ مکرمہ میں آئیں تو تلواروں کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار ہمراہ نہ لائیں اور تلواریں بھی نیاموں میں بند ہوں اور مسلمان مکہ مکرمہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے روکے جانے کی وجہ سے وہیں احرام کھول دیا اور آئندہ سال 7ہجری میں جب آپ ﷺ غزوہ خیبر اور دیگر چھوٹے چھوٹے غزوات سے فارغ ہوئے تو ماہ ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور عمرہ مکمل کیا، پھر تین دن ٹھہرنے کے بعد واپس مدینے میں چلے آئے۔ وعدہ پورا کرنے کا تقاضا بھی یہی تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے مکمل طور پر ادا فرمایا، 3۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں کفار قریش کی مرضی کے خلاف نہیں ٹھہریں گے۔ یہ مجمل الفاظ ہیں ایک روایت میں وضاحت ہے کہ تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔ چنانچہ تیسرے دن انھوں نے کود حضرت علی ؓ سے کہا کہ آج آخری دن ہے آپ اپنے آپ صاحب سے کہیں کہ وہ مکہ سے چلے جائیں رسول اللہ ﷺ سے انھوں نے کہا تو آپ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ چلے آئے۔ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث:4631۔(1783)فتح الباري:636/7)