تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اثنائے سفر میں روزہ افطار کیاجاسکتا ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:"جو شخص مریض ہو یاسفر پر ہو وہ بعد میں فوت شدہ روزے رکھ لے۔" ( البقرۃ 2:185۔) اس حدیث میں ان لوگوں کا درد ہے جو کہتے ہیں کہ جس نے اول رمضان میں روزہ رکھ لیا، اب اس افطار نہیں کرنا چاہیے لیکن اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل دوران سفر رمضان المبارک میں روزہ افطار کرنا ہے اور جوسارا رمضان مقیم ہوا سے رمضان کے روزے رکھنا ضروری ہیں۔ 2۔اس حدیث میں امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے لیے دس ہزار کی نفری لے کر روانہ ہوئے اور روانگی کے وقت مکہ مکرمہ سے ہجرت کیے ہوئے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔ 3۔واضح رہے کہ اس حدیث میں لشکر کی تعداد دس ہزار مذکور ہے جبکہ صاحب مغازی نے بارہ ہزار ذکر کی ہے جن میں مہاجرین، بانصار، اسلم،غفار، مزینہ، اور جہینہ کے قبائل بھی شامل ہیں، ان دونوں روایات میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ دس ہزار صرف مدینہ طیبہ کا لشکر تھا، پھر اس کے بعد دوہزار مذید قبائلی افراد شامل ہوگئے۔ واللہ اعلم۔(فتح الباري:7/8۔)