تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات حسرت آیات پر اہل مدینہ کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی حتی کہ حضرت عمر ؓ جیسے کوہ استقامت اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ اپنی تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے جس نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کا کہا، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند احمدکے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ آئے اور دونوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہ ؓ نے انھیں اجازت دی حضرت عمر ؓ نے آپ کو دیکھ کر کہا: ہائے! آپ بے ہوش ہوگئے ہیں۔ حضرت مغیرہ ؓ نے کہا:آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا: تم غلط کہتے ہو اور کسی فتنے کا شکار ہو چکے ہو۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک فوت ہونے والے نہیں جب تک تمام منافقین کا خاتمہ نہ کردیں۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے تو انھوں نے پردہ اٹھا کر آپ کو دیکھا اور اناللہ وانا الیه راجعون۔ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ وفات پا چکے ہیں۔ (مسند أحمد:219/6)
2۔ حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے بجائے اسم گرامی "محمد" کا لفظ استعمال کیا کیونکہ اس سے مقصود ذات کریمہ تھی۔ رسول اللہ ﷺ کہنے سے وصف رسالت کی طرف نگاہ ہوتی حالانکہ اس وقت وصف رسالت ملحوظ نہیں تھا کیونکہ اس کا تعلق مرسل یعنی ذات باری تعالیٰ سے تھا جو منقطع نہیں ہواتھا، اگر آپ کی رسالت منقطع ہوتی تو پھر ذات گرامی کا ذکر کرنا مناسب نہ تھا، اس لیے وصف رسالت کے بجائے اسم گرامی ذکر کیا گیا۔ واللہ اعلم۔