تشریح:
1۔ قریش خود کو اہل حرم اور بیت اللہ کے مجاور خیال کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے لیے ایک امتیاز قائم کر رکھا تھا کہ حج کے موقع پر حدود حرم سے نکل کر عام لوگوں کے ساتھ عرفات جانا اپنی شان کے خلاف خیال کرتے تھے، اس لیے وہ مزدلفہ جاتے اور وہیں سے واپس منی آجاتے، پھر یہی امتیاز، بنوخزاعہ، بنوکنانہ اور ان کے دوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہوگیا جن کے ساتھ قریش کے رشتے ناتے تھے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو قبائل قریش کے حلیف تھے انھوں نے بھی عام لوگوں کے ساتھ عرفات جانا چھوڑدیا۔
2۔ اس آیت کریمہ میں قریش کے فخروغرور کے اسی بت کو پاش پاش کیا گیا ہے اور انھیں سنت ابراہیم ؑ کے احیاء کے متعلق کہا گیا ہے۔ قرآن کریم میں قریش کے فخر وغرور کے اسی بات کو پاش پاش کیا گیا ہے اور انھیں سنت ابراہیم ؑ کے احیاء کے متعلق کہا گیا ہے۔ قرآن کریم نے قریش کے اس خود ساختہ امتیاز کو ختم کرکے سب کو ایک ہی سطح پرکردیا۔ 3۔ حمس، حماسہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی شدت کے ہیں، قریش چونکہ اپنے دینی معاملات میں دوسروں کی اطاعت نہیں کرتے تھے بلکہ اس سلسلے میں اپنے آپ کو خود کفیل سمجھتے تھے، اس لیے انھیں حمس کہا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی مصنوعی تقدس کے پیش نظر بے شمار بدعات قائم کررکھی تھیں، مذکورہ حدیث میں ان کی جاری کردہ ایک بدعت کا تذکرہ ہے۔