تشریح:
1۔ پہلی حدیث میں آیت اور اس کا سبب نزول دونوں مبہم ہیں جبکہ دوسری روایت میں آیت کی تعیین ہے لیکن "فِي" کے بعد اس کے مجرور کو حذف کردیا گیا ہے۔ امام بخاریؒ نے اس مقام پر فن بلا غت کی صنعت اکتفا کو استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ماہ قبل کو کافی سمجھتے ہوئے کسی چیز کو مصلحت کی بنا پر حذف کردیا جائے۔ دیگر روایات سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر(دُبُرِهَا) کا لفظ محذوف ہے۔ اسے حذف کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ اس کا ذکر اس قدر قبیح ہے کہ اسے زبان یا نوک قلم پر لانا کسی کو بھی گوارا نہیں، واللہ اعلم۔
2۔ اگرچہ امام حمیدی نے اپنی تالیف (الجمع بين الصحيحين) میں"فِي" کے بعد (اَلفَرَج) کا ذکر کیا ہے لیکن یہ انداز ان روایات کے خلاف ہے جو حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا کہ حضرت ابن عمرؓ پہلے وطی الدبر کے قائل تھے اس کے بعد انھوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ حضرت ابن عمرؓ آیت مذکورہ کا سبب نزول بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے بھی اس قسم کی روایات ملتی ہیں جب حضرت ابن عباس ؓ کو حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق معلوم ہوا تو انھوں نے اس کی تردید فرمائی چنانچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ابن عمرؓ کی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے۔ انھیں وہم ہوا ہے دراصل قبیلہ انصار بت پرست لوگ تھے اس یہودی قبیلے کے ساتھ رہتے تھے جو کہ اہل کتاب تھے اور انصار علم کی وجہ سے ان کی برتری کے معترف تھے اور اپنے اکثر کاموں میں ان کی پیروی کیا کرتے تھے اہل کتاب کا معاملہ یہ تھا کہ لوگ اپنی بیویوں سے ایک ہی انداز میں یعنی چت لٹا کر(یا پہلو کے بل سے) مجامعت کیا کرتے تھے اس طرح عورت بہت زیادہ پردے میں رہتی ہے۔ ان انصار نے بھی ان جیسا یہ عمل اختیار کیا ہوا تھا لیکن قبیلہ قریش والے اپنی عورتوں کو بری طرح پھیلاتے اور طرح طرح سے لطف اندزو ہوتے تھے آگے سے پیچھے سے اور چت لٹا کر بھی۔ جب مہاجرین مدینہ طیبہ آئے اور ان کے ایک آدمی نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی تو اس کے ساتھ اپنے اسی انداز میں صحبت کرنے لگا تو عورت نے اسے بہت برا محسوس کیا اور کہنے لگی۔ ہم سے تو ایک ہی انداز میں چت لٹا کر یا پہلو کے بل سے مجامعت کی جاتی تھی سو تم بھی اسی طرح کرو۔ بصورت دیگر مجھ سے الگ رہو حتی کہ ان کا معاملہ بہت بڑھ گیا اور رسول اللہﷺ تک جا پہنچا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: "تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں لہٰذا جس طرح تم چاہو اپنی کھیتی میں آؤ۔" (البقرہ:222/2) یعنی آگے سے پیچھے سے یا چت لٹا کر لیکن جگہ وہی فرج یعنی اگلی شرم گاہ ہو۔ بہر حال بیوی سے پاخانہ کی جگہ میں مباشرت کرنا حرام اور لعنت کاکام ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں مباشرت کرے۔" (مسند أحمد:444/2) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی مردیا عورت کی دبر میں جنسی عمل کرے۔" (جامع الترمذی، الرضاع، حدیث:1165) جب حیض کی حالت میں مجامعت کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ اس وقت شرمگاہ محل نجاست ہوتی ہے تو جو جگہ ہمیشہ کے لیے مقام نجاست ہے وہاں مجامعت کیونکر جائز ہو سکتی ہے حضرت ابن عمرؓ سے بھی رجوع ثابت ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر ؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابن عمرؓ کے سامنے وطی فی الدبر کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: "کیا مسلمانوں میں سے کوئی یہ عمل کرتا ہے؟'' (ابن کثیر:272/6) بہر حال اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے اس کی تفسیر میں جو کچھ فرمایاہے وہ ان کا پہلا موقف تھا جو صحیح اسناد سے ثابت ہے لیکن انھوں نے اس کے بعد رجوع کر لیا تھا جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔ مذکورہ احادیث کی روشنی میں مرد کو اس برے کام سے بچنا چاہیے۔ اور عورت کو بھی چاہیے کہ اس بدترین کام کے بارے میں اپنے شوہر کی بات نہ مانے اگر وہ ایسا کرنے کا کہے تو انکار کردے۔ واللہ اعلم۔