تشریح:
1۔ اس حدیث میں آیت ربا کو باعتبار نزول آخری آیت قرار دیا گیا ہے جبکہ اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا....... وَاتَّقُوا يَوْمًا﴾ تک تمام آیات ایک ہی مرتبہ سود کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں، چنانچہ ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا﴾ کے آیات ربا پر عطف اور ان کے ساتھ نازل ہونے کی وجہ سے اسے بھی انھی میں شامل کیا گیا ہے اور ان آیات میں سے یہ آخری آیت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ہی سے مروی ہے کہ آخری آخری آیت جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تھی وہ ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ﴾ ہے اس آیت کے نزول کے بعد آپ صرف نو دن زندہ رہے۔ (تفسیر جامع البیان في تأویل القرآن:41/6۔ وفتح الباري:258/8)
2۔ واضح رہے کہ اس آیت کو جو آخری آیت کہا گیا ہے وہ متعلقات ربا کے لحاظ سے ہے اور ربا کی اصل حرمت تو اس آیت کے نازل ہونے سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی جیسا کہ واقعہ اُحد کے ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو!دوگنا چوگنا کر کے سود مت کھاؤ، اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم نجات پا سکو۔" (آل عمران:130/3) مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے اپنے علم کے اعتبار سے مختلف آیات کو آخری آیت قرار دیا ہے ان میں کوئی تضاد نہیں۔