تشریح:
1۔ اس حدیث کی ایک دوسری سند میں ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو نجات دی تھی اور فرعون کو غرق کیا تھا تو موسیٰ ؑ نے اللہ کا شکر اداکرتے ہوئے اس دن کا روزہ رکھا۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3397)
2۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے یوم عاشوراء کے ساتھ ایک مزید روزہ رکھنے کا حکم فرمایا جس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔ رمضان المبارک کے بعد یوم عاشوراء کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی، البتہ استحباب باقی ہے۔ واللہ اعلم۔
3۔ چونکہ آیت میں فرعون کے غرق ہونے کا ذکر تھا اور حدیث میں اس کی مناسبت سے روزے کا بیان ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے آیت کے ذیل میں مذکور حدیث کوبیان کیا ہے۔
4۔ واضح رہے کہ فرعون کی لاش نہ تو سمندر میں ڈوب کر معدوم ہوئی اور نہ ہی وہ مچھلیوں کی خوراک بنی بلکہ اس کے ڈوب جانے کے بعد سمندر میں ایک لہراٹھی جس نے اس کی لاش کو سمندر کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر پھینک دیا تاکہ باقی لوگ فرعون کا لاشہ دیکھ کر عبرت حاصل کریں جو باشادہ خود کو ﴿أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى﴾ کہتا تھا، بالآخر اس کا انجام کیا ہوا۔
5۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس کی لاش آج تک محفوظ ہے اور قاہرہ کے عجیب خانے میں پڑی ہے، جس پر سمندری نمک کی تہہ جمی ہوئی ہے جو اسے پُرانا ہونے اوگلنے سڑنے سے محفوظ رکھتی ہے، تاہم الفاظ قرآنی کی صحت اس امر پر موقوف نہیں کہ اس کی لاش قیامت تک محفوظ رہے۔