تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں سیدنا یوسف ؑ کے صبرو تحمل کی تعریف فرمائی ہے کہ انھوں نے جبل میں لمبی مدت رہنے کے باجود بھی جلد بازی سے کام نہیں لیا۔ بلکہ صبرو عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ چاہا کہ میرے ناجائز اور ظلم وستم پر مبنی جبل میں رہنے کی خوب وضاحت ہو جائے۔ نبی ﷺ نے (لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ) کہہ کر اپنی عبودیت کاملہ اور انکسار کا اظہار فرمایاہے۔
2۔ بہر حال حضرت یوسف ؑ نے جب دیکھا کہ بادشاہ مصر اب مائل بہ کرم ہے تو انھوں نے اس طرح محض بادشاہ مصر کی عنایت سے آزاد ہونا پسند نہیں فرمایا بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپ کے کردار کا حسن اور اس کی بلندی واضح ہو جائے کیونکہ داعی الی اللہ کے لیے عفت و پاک بازی اور بلندی کردار بہت ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اسی کردار کو سراہا ہے۔
3۔ اس کردار سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مکرو فریب کا اثر محدود اور عارضی ہوتا ہے بالآخر جیت حق اور اہل حق کی ہوتی ہے اگرچہ عارضی طور پر اہل حق کو ابتلاء وآزمائش سے گزرنا پڑتاہے۔ واللہ المستعان۔