تشریح:
1۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب تیز ہوا چلتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے۔ (اللَّهُمَّ إِني أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا ، وَخَيْرِ مَا فِيهَا ، وخَيْر ما أُرسِلَتْ بِهِ ، وَأَعُوذُ بك مِنْ شَرِّهِا ، وَشَرِّ ما فِيها ، وَشَرِّ ما أُرسِلَت بِهِ) جب آسمان پر بادل گہرے ہو جاتے تو آپ کے چہرہ انور کا رنگ بدل جاتا اور آپ پر خوف کی سی کیفیت طاری ہو جاتی جس سے آپ بے چین رہتے کبھی باہر نکلتے کبھی اندر آتے کبھی آگے ہوتے اور کبھی پیچھے جاتے ۔جب بارش ہو جاتی تو اطمینان کا سانس لیتے۔ (صحیح مسلم، صلاة الاستقاء، حدیث:2085۔(899))
2۔ قوم عاد پر جب ہوا کا عذاب آیا تو اس کی تیزی کا یہ عالم تھا کہ وہ درختوں اور پودوں کو بیخ جڑ سے اکھاڑ کر پرے پھینک دیتی تھی۔ یہی آندھی ان کے زمین دوزمکانوں میں گھس گئی اس دوران میں وہ اپنے گھروں سے نکل بھی نہ سکتے تھے سردی کی شدت سے وہ ٹھٹھرٹھٹھر کر مر گئے۔ وہاں کھنڈرات کے علاوہ کوئی چیز نظر نہ آتی تھی وہ تیز اور سخت ٹھنڈی ہوا قوم عاد پر آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل چلتی رہی اس واقعے سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی چیزکی ظاہری شکل و صورت سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے اور نہ اس پر تکیہ ہی کر لینا چاہیے بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ واللہ المستعان۔