قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ، وَقَالُوا: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب:

4860 .   حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ وَمَنْصُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ السَّنَةُ حَتَّى حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ وَالْجُلُودَ فَقَالَ أَحَدُهُمْ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ أَيْ مُحَمَّدُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ فَدَعَا ثُمَّ قَالَ تَعُودُونَ بَعْدَ هَذَا فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ ثُمَّ قَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى عَائِدُونَ أَنَكْشِفُ عَنْهُمْ عَذَابَ الْآخِرَةِ فَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَقَالَ أَحَدُهُمْ الْقَمَرُ وَقَالَ الْآخَرُ وَالرُّومُ

صحیح بخاری:

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: آیت (( ثم تولوا عنہ وقالوا معلم مجنون )) کی تفسیر’’پھر بھی یہی لوگ سرتابی کرتے رہےاور یہی کہتے رہے کہ یہ سکھایا ہوا دیوانہ ہے‘‘

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

4860.   حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا ہے: ’’آپ کہہ دیں: میں تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف سے باتیں بناتا ہوں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے جب قریش کو دیکھا کہ انہوں نے نافرمانی کی ہے تو اللہ تعالٰی سے دعا مانگی: ’’اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط مسلط فرما جس طرح حضرت یوسف ؑ کی قوم پر بھیجا تھا، اس طرح میری ان کے خلاف مدد فرما۔‘‘ چنانچہ انہیں ایسی قحط سالی نے پکڑا کہ جس نے ہر چیز ختم کر دی حتی کہ وہ ہڈیاں اور چمڑے کھانے لگے۔ ان (راویانِ حدیث: سلیمان اور منصور) میں سے ایک نے کہا: حتی کہ وہ (مشرکین مکہ) چمڑے اور مردار بھی کھا گئے۔ زمین سے دھوئیں کی طرح کچھ برآمد ہوتا تھا، آپ کے پاس ابوسفیان آئے اور عرض کیا: اے محمد! آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کریں کہ وہ لوگوں سے عذاب دور کر دے۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی (تو خشک سالی دور ہو گئی) پھر فرمایا: ’’تم لوگ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاؤ گے۔‘‘ منصور کی بیان کردہ حدیث میں ہے: پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿فَٱرْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ۔۔۔ عَآئِدُونَ﴾ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے دور کر دیا جائے گا؟ اس لیے دھواں، بطشہ اور لزام تو گزر چکے ہیں۔ اس حدیث کے راویوں میں سے ایک نے کہا ہے: شق قمر بھی ہو چکا ہے۔ دوسرے راوی نے کہا: اہل روم کا غلبہ بھی ہو چکا ہے۔