تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے آگے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نماز میں کھڑے لوگوں کے سامنے سے گزرے تو کسی نے اعتراض نہ کیا، کیونکہ وہ سب سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے کسی کے اعتراض کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نفی جدار کا فائدہ تبھی ہے جب کسی دوسری چیزکا سترہ تسلیم کیا جائے بصورت دیگر یہ نفی لغو ٹھہرے گی، لیکن حافظ ابن حجر ؓ، جوتراجم سے احادیث کی مطابقت پیدا کرنے میں بڑے ماہر ہیں، اس مقام پر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا استدلال محل نظر ہے، کیونکہ اس میں صراحت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، بلکہ امام بیہقی ؒ نے اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’سترے کے بغیر نماز پڑھنے کا بیان۔‘‘ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امام شافعی ؒ نے إلی غیر جدار کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سترے کے بغیر نماز پڑھ رہے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ ہم نے کتاب العلم میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام شافعی ؒ کے مؤقف کی تائید میں روایت بزار بھی ذکر کی تھی۔ (فتح الباري:739/1) مسند بزار ے حوالے سے حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ روایت بایں الفاظ نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اورآپ کے آگے کوئی چیز بطور سترہ نہ تھی۔ (فتح الباري:226/1) 2۔ یہ سب باتیں اگرچہ بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہیں، لیکن اگرحدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو امام بخاری ؒ کا مؤقف صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حدیث میں إلی غیر جدار کے الفاظ ہیں اور لفظ غیر ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے، اس لیے تقدیری عبارت یوں ہوگی:(يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار) یعنی رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا رہے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کا عام معمول بھی یہی تھا کہ آپ جب کھلی فضا میں نماز پڑھاتے تو سترہ قائم فرمالیتے تھے، اس لیے حضرت ابن عباس ؓ کے الفاظ کا معمولات نبوی کے مطابق وہی مفہوم مراد لینا بہترہے جو امام بخاری ؒ نے سمجھاہے، نیز ابن عباس ؓ فرمارہے ہیں کہ میرے اس عمل پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہ بھی امام بخاری ؒ کی دلیل ہے کیونکہ جب سترہ قائم تھا تو کسی کے لیے اعتراض کا موقع ہی نہیں تھا۔ اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:’’ اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ إلی غیر جدار کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں سترہ تھا، کیونکہ غیر کا لفظ ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے۔ تقدیری عبارت یوں ہو گی کہ’’دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف‘‘ وہ چیز لاٹھی بھی ہوسکتی ہے، نیز بھی ہوسکتا ہے، ان کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ (عمدة القاری:569/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اس حدیث کے متعلق شرح تراجم بخاری میں یوں رقم طراز ہیں:’’اس عنوان سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ اگر کوئی امام کےسترے کی موجودگی میں مقتدیوں کے آگے سےگزر جائے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا۔ اور امام بخاری ؒ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ امام شافعیؒ کا إلی غیر جدار کے معنی إلی غیر سترة کرنا صحیح نہیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے سامنے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا اگرچہ وہ نیزہ یا برچھا وغیرہ ہو، کیونکہ آپ کے احوال کے تتبع سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ صحرا وغیرہ میں نماز پڑھتے تو آپ کے سامنے نیزہ گاڑا جاتا تھا، اسی لیے حضرت ابن عباس ؓ کے استدلال میں اشکال پیداہوگیا ہے، کیونکہ کسی شخص کے انکار نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز سترے کی طرف تھی اور قوم کا سترہ وہی ہوتا ہے جو امام کاسترہ ہو۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے، اسے خوب سمجھ لو۔ یہ توجیہ بھی ممکن ہے کہ امام شافعی ؒ کے قول إلی غیر سترة سے مراد یہ ہوکہ دیوار کے سترے کے بغیر نماز پڑھی۔ اس سے مطلق سترے کی نفی نہیں۔ اس توجیہ سے امام شافعی اور دیگرمحدثین کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں رہتا۔‘‘ واضح رہے کہ عربی زبان میں لفظ غیر اگرچہ نفی محض کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اما م بخاری ؒ کے تصرف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں غیر بطور صفت استعمال ہواہے، اس معنی کی بنیاد پر دیوار کی نفی کا فائدہ ظاہر ہوتا ہے اور اگروہاں دیوانہ نہ تھی اور نہ کوئی دوسری چیز ہی تو دیوار کی نفی کرنا لغو ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حوالے سے جو حدیث بیان کی ہے، اس پر ہماری گزارشات پہلے گزر چکی ہیں۔