تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ انفرادی رائے ہے، دیگر صحابہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک سورۂ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت کریمہ سورۂ مائدہ کی درج ذیل آیت سے منسوخ ہے: ’’اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی حلال ہیں۔‘‘ (المائدة: 5/5) حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان سے بچنے کی تلقین کرتے تھے لیکن انھیں حرام قرار نہیں دیتے تھے۔
(2) شاید امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی ہو کہ اہل کتاب مشرک عورتوں سے نکاح جائز نہیں، حالانکہ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انھوں نے اہل کتاب خواتین سے نکاح کیا۔ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مسلمانوں کو عار دلانا چاہتے ہوں کہ وہ ایسی عورتوں سے نکاح کرتے ہیں جن کا دامن شرک سے آلودہ ہے۔ ایسے حالات میں بیوی خاوند کے درمیان ہم آہنگی کیسے ہوسکے گی اور ان میں محبت و الفت کیونکر پیدا ہوسکے گی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فتوی نہیں بلکہ ان سے دور رہنے کا مشورہ ہے کہ اس قسم کے میاں بیوی میں اتفاق و یگانگت پیدا نہیں ہوگی جو نکاح کے اہم مقاصد سے ہے۔ یہ تاویل اس لیے ضروری ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی طرف شذوذ کی نسبت نہ ہو۔ واللہ اعلم