تشریح:
(1) حضرت ام خالد رضی اللہ عنہما حضرت خالد بن سعید بن عاص اموی کی والدہ ماجدہ ہیں۔ وہ حبشہ میں پیدا ہوئیں اور ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ سے ایک قمیص پہنائی تھی اور فرمایا: اسے خوب پرانی کرو۔ وہ قمیص دیر تک ان کے پاس رہی۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ قمیص عرصۂ دراز ان کے پاس رہی حتی کہ وہ سیا ہو گئیں، یعنی ام خالد رضی اللہ عنہما بہت مدت تک زندہ رہیں حتی کہ ان کی رنگت سیاہ ہو گئی۔
(2) جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی حتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت سے کھیلنے لگیں اور آپ نے بطور مزاح سنه سنه کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی بچی سے مزاح کرسکتا ہے اگرچہ وہ محرمہ نہ ہو۔ اگر مزاح کرتے وقت نیت میں فتور ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
(3) امام بخاری رحمہ اللہ نے مبنی برحقیقت مزاح پر بوسے کو قیاس کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چھوٹی بچی سے قولی اور عملی مزاح سے مراد بچی کو اپنے ساتھ مانوس کرنا ہوتا ہے۔ اور بوسہ لینا بھی اسی قسم سے ہے۔ (فتح الباري:10/522) امام بخاری رحمہ اللہ کا عنوان میں تقبیل کے بعد مزاح کا ذکر کرنا، خاص کے بعد عام ذکر کرنے کی طرح ہے۔ والله أعلم