تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان کے دو جز ہیں: پہلا لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور دوسرا اپنے اہل خانہ سے خوش طبعی کرنا۔ اس حدیث میں اپنے اہل خانہ سے خوش طبعی کا بیان ہے۔ اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک یا خیبر سے واپس گھر آئے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ لٹکا ہوا تھا۔ ہوا چلی تو اس نے پردے کی ایک جانب اٹھا دی۔ اس وقت سامنے میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’عائشہ! یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: یہ میری گڑیاں ہیں۔ آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر تھے۔ آپ نے پوچھا: ’’میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟‘‘ میں نے کہا: یہ گھوڑا ہے۔ آپ نے پوچھا: ’’اس کے اوپر کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: اس کے دو پر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جواب پر اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں دیکھیں۔ (سنن أبي داود، الأدب،حدیث:4932) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوش طبعی کا یہ ایک نمونہ ہے۔ کتب احادیث میں بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔
نوٹ: بچوں اور بچیوں کو گڑیوں سے کھیلنے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ یہ ان کا فطری حق ہے مگر ضروری ہے کہ ان کی تفریحات شریعت کے مزاج کے خلاف نہ ہوں۔ بچیاں اگر اپنے طور پر ہاتھ سے گڑیاں گڈے بنائیں تو جائز ہے، تاہم خیال رہے کہ دور حاضر میں ان کھلونوں کی جو ترقی یافتہ جدید صورت ہے کہ پلاسٹک وغیرہ سے بنے ہوئے کھلونے نقل مطابق اصل ہوتے ہیں ان کے متعلق ہمارا رجحان ہے کہ یہ جائز نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ انہیں گھروں میں بطور آرائش نمایاں کر کے رکھا جاتا ہے، اس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ واللہ المستعان