قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَدَبِ (بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الشِّعْرِ وَالرَّجَزِ وَالحُدَاءِ وَمَا يُكْرَهُ مِنْهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ: {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الغَاوُونَ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ، وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لاَ يَفْعَلُونَ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا، وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ} [الشعراء: 225] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فِي كُلِّ لَغْوٍ يَخُوضُونَ»

6148. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَسِرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الأَكْوَعِ: أَلاَ تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ؟ قَالَ: وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُو بِالقَوْمِ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا ... وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءٌ لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا ... وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا ... إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ هَذَا السَّائِقُ» قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الأَكْوَعِ، فَقَالَ: «يَرْحَمُهُ اللَّهُ» فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ: وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَوْلاَ أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ، حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ اليَوْمَ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ، أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذِهِ النِّيرَانُ، عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ» قَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ: «عَلَى أَيِّ لَحْمٍ؟» قَالُوا: عَلَى لَحْمِ حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَهْرِقُوهَا وَاكْسِرُوهَا» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا؟ قَالَ: «أَوْ ذَاكَ» فَلَمَّا تَصَافَّ القَوْمُ، كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ، فَتَنَاوَلَ بِهِ يَهُودِيًّا لِيَضْرِبَهُ، وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاحِبًا، فَقَالَ لِي: «مَا لَكَ» فَقُلْتُ: فِدًى لَكَ أَبِي وَأُمِّي، زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ: «مَنْ قَالَهُ؟» قُلْتُ: قَالَهُ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَأُسَيْدُ بْنُ الحُضَيْرِ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ - وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ - إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، قَلَّ عَرَبِيٌّ نَشَأَ بِهَا مِثْلَهُ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 اوراللہ تعالیٰ نے سورۃ شعراءمیں فرمایا ، شاعروں کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ وہ باتیں ، کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے ۔ سوا ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور جنہوں نے عمل صالح کئے اوراللہ کا کثرت سے ذکرکیااورجب ان پر ظلم کیا گیا تو انہوں نے اس کا بدلہ لیا اور ظلم کرنے والوں کو جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ ( فی کل واد یھیمون ) کا مطلب یہ ہے کہ ہرایک لغو بے ہودہ بات میں گھستے ہیں ۔تشریح : رجز وہ شعر جو میدان جنگ میں پڑھے جاتے ہیں اپنی بہادری جتلانے کے لئے اور حدی وہ موزوں کلام جو اونٹوں کو سنایا جاتا ہے تاکہ وہ گرم ہوجائیں اور خوب چلیں یہ حدی خوانی عرب میں ایسی رائج ہے کہ اونٹ اسے سن کر مست ہوجاتے اور کوسوں بغیر تھکنے کے چلے جاتے ہیں۔ آج کے دور میں ان اونٹوں کی جگہ ملک عرب میں بھی کاروں، بسوں نے لے لی ہے الا ما شاءاللہ ۔ آیت میں ان شعروں کے جواز پر اشارہ ہے جو اسلام کی بر تری اور کفار کے جواب میں کہے جائیں ۔ حضرت حسان ایسے ہی شاعر تھے جن کو دربار رسالت کے شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔

6148.

حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف گئے تو رات بھر چلتے رہے۔ اس دوران میں صحابہ کرام میں کسی نے حضرت عامر بن اکوع ؓ سے کہا: کیا تم ہمیں اپنے اشعار نہیں سناتے؟ حضرت عامر شاعر تھے۔ وہ اپنی سواری سے اترے اور لوگوں کو یہ شعد سنانے لگےاے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے ہم تجھ پر فدا ہیں ہم نے پہلے جو کچھ گناہ کیے ہیں انہیں معاف کر دے اور جب دشمن سے ہمارا پالا پڑے تو ہمیں ثابت قدم رکھنا اور ہم پر سکون و اطمینان نازل فرما، جب ہمیں جنگ کے لیے بلایا جاتا ہے تو ہم وہاں پہنچ جاتے ہیں اور وہ بلند آوازوں سے ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اونٹوں کو چلانے والا شخص کون ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: یہ عامر بن اکوع ؓ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ اس پر رحم کرے!“ صحابہ کرام میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! اب تو ان کے لیے شہادت ضروری ہو گئی ہے آپ چند روز تک ہمیں ان کی زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیتے۔ راوی نے کہا: پھر ہم خیبر آئے اور وہاں یہودیوں کا محاصرہ کیا حتیٰ کہ ہمیں بھوک نے بہت تنگ کیا، پھر اللہ تعالٰی نے ہمیں اہل خیبر پر فتح عطا کی۔ جب فتح کے روز شام ہوئی تو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: یہ آگ کیسی ہے؟ ”تم لوگ کس پر آگ جلا رہے ہو؟“ لوگوں نے عرض کیا: گوشت پکا رہے ہیں آپ نے فرمایا: ”کون سا گوشت ؟“ انہوں نے کہا: پالتو گدھوں کا گوشت پکا رہے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گوشت پھینک دو اور برتنوں کو توڑ دو۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم گوشت پھینک دیں اور برتنوں کو دھو لیں تو؟ آپ نے فرمایا : ”چلو ایسا کرلو۔“ جب صحابہ کرام نے جنگ کے لیے صف بندی کر لی تو حضرت عامر ؓ نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر حملہ کیا۔ چونکہ تلوار چھوٹی تھی۔ اس لیے اس کی نوک پلٹ کر ان کے گھٹنے پر آ لگی، اس وجہ سے ان کی شہادت ہو گئی۔ جب لوگ واپس آنے لگے تو حضرت سلمہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے افسردہ دیکھ کر فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! لوگ کہتے ہیں کہ عامر ؓ کے اعمال برباد ہو گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ کس نے کہا ہے؟“ میں نے کہا: فلاں فلاں اور حضرت اسید بن حفیر انصاری ؓ نے ایسا کہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے یہ بات کہی ہے، اس نے غلط کہا ہے، انہیں تو دو گناہ اجر ملے گا۔ ۔ ۔ آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو جمع کر کے اشارہ فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ عابد بھی تھا اور مجاہد بھی تھا عامر کی طرح تو بہت کم بہادر پیدا ہوتے ہیں۔“