تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان کے آخری حصے کو ثابت کرنے کےلیے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھنے کا اعلان حي علی الصلاة کی جگہ یا اس کے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کیا کہا جائے؟ متقدمین کے ہاں اس کے متعلق تین موقف حسب ذیل ہیں: ٭حي علی الصلاة کی جگہ ان الفاظ کو کہا جائے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے مؤذن کو کہا کہ جب تو أشهد ان محمداً رسول الله کہے تو حي علی الصلاة مت کہنا بلکہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کرنا۔ (صحیح البخاری، الجمعة، حدیث:901) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کیچڑ کے دن خطبہ دینے کا ارادہ فرمایا، مؤذن جب حي علی الصلاة پر پہنچا تو اسے حکم دیا کہ وہ الصلاة في الرحال کے الفاظ کہے۔ (صحیح البخاري، الأذان،حدیث:668) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ الصلاة في الرحال کے الفاظ حي علی الصلاة کی جگہ پر کہے جائیں۔ امام ابن خزیمہ ؒ نے ان الفاظ کے پیش نظر اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ بارش کہ دن حي علی الصلاة کے الفاظ حذف کردیے جائیں۔ ان حضرات نے جب اذان کے مفہوم پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حي علی الصلاة کہنے، پھر الصلاة في الرحال یا صلوا في بيوتكم کا اعلان کرنے میں بظاہر تضاد ہے، اس لیے حي علی الصلاة کے الفاظ حذف کر دیے جائیں۔ (فتح الباري:130/2)
(2) حي علی الصلاة کے بعد یہ اعلان کیا جائے۔ اس کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ سخت سردی کی رات میں مؤذن نے اذان دی تو اس نے حي علی الصلاة کہنے کے بعد گھروں میں نماز پڑھنےکا اعلان کیا۔ (المصنف عبدالرزاق:501/1)
(3) گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان اذان مکمل ہونے کے بعد کیا جائے۔ جیسا کہ مذکورہ روایت میں حضرت ابن عمر ؓ نے اس امر کی صراحت کی ہے تاکہ اذان کا نظم متاثر نہ ہو۔ ہمارے نزدیک راجح آخری موقف ہے کہ اذان کی تکمیل کے بعد گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جائے، کیونکہ ان الفاظ سے اگر کوئی فائدہ اٹھا کر گھر میں نماز پڑھنا چاہے تو اس کےلیے رخصت ہے اور اگر حي علی الصلاة کے پیش نطر تکلیف برداشت کرکے مسجد میں آتا ہے تو اس کے لیے یقیناً یہ امر باعث اجرو ثواب ہوگا۔ اس سلسلے میں حضرت جابر ؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں نکلے تو بارش ہونے لگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر کوئی خیمے میں نماز پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1603(698))
(4) حدیث میں سفر کا ذکر اتفاقی ہے۔ اگر ایسے حالات حضر میں پیدا ہو جائیں تو عام حالات میں بھی مذکورہ اعلان کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کو سہولت رہے اور مسجد میں آنے کی تکلیف سے محفوظ رہیں۔