تشریح:
(1) اس حدیث میں زنا، شراب نوشی، چوری اور ڈاکا زنی کے وقت ایمان کی نفی آئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص اس وقت کامل ایمان والا نہیں رہتا کیونکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جس نے لاإله إلااللہ کہا وہ جنت میں جائے گا اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5827) نیز حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ انھوں نے چوری اور زنانہ کر نے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ اس کے آخر میں ہے کہ جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ بن جائے گی بصورت دیگر وہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، چاہے تو اسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث:6784)
(2) اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو کافر نہیں کہا جائے گا، البتہ شرک کرنے سے وہ کافر ہو جائے گا جبکہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے انسان دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور ایسا شخص ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ دیگر احادیث خوارج کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ بہرحال مذکورہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں بلکہ محققین نے اس کی تاویل کی ہے جس کی تفصیل ہم نے بیان کی ہے۔ (فتح الباري:74/12)