تشریح:
(1) تجارت کا یہ اصول ہے کہ غلہ وغیرہ جب خریدا جائے تو اس پر قبضہ کیا جائے۔ قبضہ کرنے کے بعد اسے آگے فروخت کرنے کی اجازت ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مشتری خرید کردہ چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کر دیتا تھا، اس پر انھیں مار پڑتی تھی۔ یہ مار بطور تنبیہ اور تعزیر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تنبیہ کے طور پر بدنی سزا بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ چہرے پر نہ مارا جائے اور مار سے نشان وغیرہ نہ پڑیں۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو انسان بھی شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے غلط کاروبار کرتا ہے اسے بدنی سزا دی جا سکتی ہے، نیز بازار میں ایک محتسب کا ہونا ضروری ہے جو ایسے لوگوں پر نظر رکھے، پھر جو لوگ منع کرنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں انھیں سزا دی جائے۔ (فتح الباري:222/12)