تشریح:
1۔پہلی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔ اس اخوت کا تقاضا ہے کہ وہ اسے کسی دوسرے کے رحم و گرم پر نہ چھوڑے بلکہ خود اس کی مدد اور نصرت کے لیے آگے بڑھے۔ اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کسی صورت میں اپنے مسلمان بھائی کو خواہ وہ قریبی ہو یا اجنبی اسے دشمن کے حوالے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اسے قتل کر دے بلکہ اے ہر صورت میں بچانا ضروری ہے جیسا کہ اپنی جان بچانا ضروری ہے قریبی کے حق میں اکراہ کا اعتبار کر کے اس کی بیع کو غیر لازم قرار دینا اور اجنبی کے حق میں اکراہ کو غیر معتبر خیال کر کے اس کی بیع کو لازم قرار دینا اسلامی اخوت کے خلاف ہے جس کا ان احادیث میں حکم دیا گیا ہے۔
2۔اسی طرح دوسری حدیث کا تقاضا ہے کہ ایک مسلمان اپنے قریبی اور غیر قریبی بھائی کی مدد کرے۔ اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم سے روکے اور اگر مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچائے چونکہ اس حدیث میں مظلوم کی مدد کا حکم ہے اس لیے ہر ممکن طریقےسے اس کی مدد کرنی چاہیے قریبی اور اجنبی کی تفریق کر کے مظلوم کو اپنے تعاون سے محروم کرنا بےانصافی ہے۔
3۔علامہ کرمانی نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مباحث میں جو مثالیں ذکر کی ہیں وہ اس کتاب کے اسلوب کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ یہ مثالیں فن حدیث سے غیر متعلق ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے کہ علامہ کرمانی کا یہ اعتراض انتہائی عجیب ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف احادیث کو جمع کرنے کے لیے یہ کتاب تصنیف نہیں کی بلکہ انھوں نے مسائل و احکام کو ثابت کرنے کے لیے اس کتاب کو مرتب کیا ہے بلکہ یہ مقولہ محدثین کے ہاں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت ان کے قائم کردہ عنوانات میں ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں اپنے مقتدمین کے نقش قدم پر چلتے ہیں ان کے ہاں مسائل کے اختیار کا یہی طریقہ ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:406/12)