قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الإِكْرَاهِ (بَابُ يَمِينِ الرَّجُلِ لِصَاحِبِهِ: إِنَّهُ أَخُوهُ ، إِذَا خَافَ عَلَيْهِ القَتْلَ أَوْ نَحْوَهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَكَذَلِكَ كُلُّ مُكْرَهٍ يَخَافُ، فَإِنَّهُ يَذُبُّ عَنْهُ المَظَالِمَ، وَيُقَاتِلُ دُونَهُ وَلاَ يَخْذُلُهُ، فَإِنْ قَاتَلَ دُونَ المَظْلُومِ فَلاَ قَوَدَ عَلَيْهِ وَلاَ قِصَاصَ. وَإِنْ قِيلَ لَهُ: لَتَشْرَبَنَّ الخَمْرَ، أَوْ لَتَأْكُلَنَّ المَيْتَةَ، أَوْ لَتَبِيعَنَّ عَبْدَكَ، أَوْ تُقِرُّ بِدَيْنٍ، أَوْ تَهَبُ هِبَةً، وَتَحُلُّ عُقْدَةً، أَوْ لَنَقْتُلَنَّ أَبَاكَ أَوْ أَخَاكَ فِي الإِسْلاَمِ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، وَسِعَهُ ذَلِكَ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ» وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لَوْ قِيلَ لَهُ لَتَشْرَبَنَّ الخَمْرَ، أَوْ لَتَأْكُلَنَّ المَيْتَةَ، أَوْ لَنَقْتُلَنَّ ابْنَكَ أَوْ أَبَاكَ، أَوْ ذَا رَحِمٍ مُحَرَّمٍ، لَمْ يَسَعْهُ، لِأَنَّ هَذَا لَيْسَ بِمُضْطَرٍّ. ثُمَّ نَاقَضَ فَقَالَ: إِنْ قِيلَ لَهُ: لَنَقْتُلَنَّ أَبَاكَ أَوِ ابْنَكَ، أَوْ لَتَبِيعَنَّ هَذَا العَبْدَ، أَوْ تُقِرُّ بِدَيْنٍ أَوْ تَهَبُ، يَلْزَمُهُ فِي القِيَاسِ، وَلَكِنَّا نَسْتَحْسِنُ وَنَقُولُ: البَيْعُ وَالهِبَةُ، وَكُلُّ عُقْدَةٍ فِي ذَلِكَ بَاطِلٌ. فَرَّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي رَحِمٍ مُحَرَّمٍ، وَغَيْرِهِ، بِغَيْرِ كِتَابٍ وَلاَ سُنَّةٍ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِامْرَأَتِهِ: هَذِهِ أُخْتِي، وَذَلِكَ فِي اللَّهِ وَقَالَ النَّخَعِيُّ: «إِذَا كَانَ المُسْتَحْلِفُ ظَالِمًا فَنِيَّةُ الحَالِفِ، وَإِنْ كَانَ مَظْلُومًا فَنِيَّةُ المُسْتَحْلِفِ»

6952. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا أَفَرَأَيْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ قَالَ تَحْجُزُهُ أَوْ تَمْنَعُهُ مِنْ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اس پر قسم کھائی اس ڈر سے کہ اگر قسم نہ کھائے گا تو کوئی ظالم اس کو مارڈالے گا یا کوئی اور سزا دے گا اسی طرح ہر شخص جس پر زبردستی کی جائے اور وہ ڈرتا ہو تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس کی مدد کرے ظالم کا ظلم اس پر سے دفع کرے اس کے بچانے کے لیے جنگ کرے اس کو دشمن کے ہاتھ میں نہ چھوڑ دے پھر اگر اس نے مظلوم کی حمایت میں جنگ کی اور اس کے بچانے کی غرض سے ظالم کو مارہی ڈالا تو اس پر قصاص لازم نہ ہوگا( نہ دیت لازم ہوگی) اور اگر کسی شخص سے یوں کہا جائے تو شراب پی لے یا مردار کھالے یا اپنا غلام بیچ ڈال یا اتنے قرض کا اقرار کرے( یا اس کی دستاویز لکھ دے) یا فلاں چیز ہبہ کردے یا کوئی عقد توڑ ڈال نہیں تو ہم تیرے دینی باپ یا بھائی کو مارڈالیں گے تو اس کو یہ کام کرنے درست ہوجائیں گے کیوں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس سے یوں کہا جائے تو شراب پی لے یا مردار کھالے نہیں تو ہم تیرے بیٹے یا باپ یا محرم رشتہ دار، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ کو مارڈالیں گے تو اس کو یہ کام کرنے درست نہ ہوں گے نہ وہ مضطر کہلائے گا پھر ان بعض لوگوں نے اپنے قول کا دوسرے مسئلہ میں خلاف کیا۔ کہتے ہیں کہ کسی شخص سے یوں کہا جائے ہم تیرے باپ یا بیٹے کو مارڈالتے ہیں نہیں تو تو اپنایہ غلام بیچ ڈال یا اتنے قرض کا اقرار کرلے یا فلاں چیز ہبہ کردے تو قیاس یہ ہے کہ یہ سب معاملے صحیح اور نافذ ہوں گے مگر ہم اس مسئلہ میں اتحسان پر عمل کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں بیع اور ہبہ اور ہر ایک عقد اقرار وغیرہ باطل ہوگا ان بعض لوگوں نے ناطہ وار اور غیر ناطہ وار میں بھی فرق کیا ہے۔ جس پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بیوی سارہ کو فرمایا یہ میری بہن ہے اللہ کی راہ میں دین کی رو سے اور ابراہیم نخعی نے کہا اگر قسم لینے والا ظالم ہو تو قسم کھانے والے کی نیت معتبر ہوگی اور اگر قسم لین والا مظلوم ہو تواس کی نیت معتبر ہوگی۔تشریح : فقہائے حنفیہ نے ایک استحسان نکالا ہے۔ قیاس خفی جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے وہ جس مسئلہ میں ایسے ہی قواعد اور اصول موضوعہ کا خلاف کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کیا کریں قیاس تو یہی چاہتا تھا کہ ان اصول اور قواعد کے مطابق حکم دیا جائے مگر اتحسان کی رو سے ہم نے اس مسئلہ میں یہ حکم دیا ہے۔ حضرت امام بخاری نے ان لوگوں کے بارے میں بتلانا چاہا ہے کہ آپ ہی تو ایک قاعدہ مقرر کرتے ہیں پھر جب چاہیں آپ ہی استحسان کا بہانہ کرکے اس قاعدے کو توڑڈالتے ہیں یہ تو من مانی کارروائی ہوئی نہ شریعت کی پیروی ہوئی نہ قانون کی اور عینی نے جو اتحسان کے جواز پر آیت فَےَتَّبِعُونَ اَحسَنَہ اور حدیث ماراہ المسلمون حسنا سے دلیل لی یہ استدلال فاسد ہے کیوں کہ آیت میں یستمعون القول سے قرآن مجید مراد ہے اور ماراہ المسلمون حسنا یہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے۔ مرفوعاً ثابت نہیں ہے اور حدیث موقوف کوئی حجت نہیں ہے علاوہ اس کے مسلمون سے اس قول میں جمیع مسلمین مراد ہیں یا صحابہ اور تابعین ورعنہ عینی کے قول پر یہ لازم آئے گا کہ تمام اہل بدعات اور فساق اور فجار جس بات کو اچھا صحیح سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہو اس کے سوا ہم یہ کہیں گے کہ اسی قول میں یہ بھی ہے کہ جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے اور اہل حدیث کا گروہ فقہا کے استحسان کو براسمجھتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہوا بلکہ وہ استبحان یا استقباح ہوا لاحول ولا قوۃ الا باﷲ ( وحیدی )

6952.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو،خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! جب وہ مظلوم ہوگا تو میں اس کی مدد کروں گا آپ کے خیال کے مطابق میں ظالم کی مدد کیسے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس وقت اسے ظلم سے باز رکھنا ہی اس کی مدد کرنا ہے۔“