تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے وحی نزول وحی، اقسام وحی اور زمانہ وحی سے متعلقہ احادیث بیان کی ہیں۔ اب ضرورت تھی کہ جس شخصیت پر وحی کا نزول ہوا ہے اس مبارک ہستی کا بھی تعارف کرایا جائے، چنانچہ اس حدیث میں موحیٰ الیہ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال واعمال اورآپ کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، نیز اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر دو زبردست اور ناقابل تردید شہادتیں موجود ہیں: ایک ابوسفیان کا بیان، جو اس وقت آپ کا سخت دشمن تھا۔ دوسرے ہرقل کی تصدیق، جو اس وقت ایک عظیم سلطنت کا فرمانروا اور مستند عالم اہل کتاب تھا۔ اس کے علاوہ باب کی غرض عظمت وحی کو بیان کرنا بھی ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اوصاف عالیہ کو بیان کیا گیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہی کی ذات ستودہ صفات وحی الٰہی کی حق دار تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظمت سے وحی الٰہی کی عظمت خود ظاہر ہے۔
2۔ ہرقل روم کے بادشاہ کانام تھا اور اس ملک کے بادشاہ کو قیصر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہ حدیث اس مناسبت سے حدیث ہرقل کہلاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کفار کی طرف سے بیرونی خلفشار اور اندرونی محاذ آرائی سے فارغ ہوئے توآپ نے مختلف ملوک وسلاطین کو دعوتی خطوط ارسال کیے، چنانچہ آپ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ ایک خط قیصر روم کو بھی روانہ کیا جو ان دنوں ایفائے نذر کے لیے بیت المقدس آیا ہوا تھا۔ ہوا یوں کہ اس وقت دنیا کی دو بری حکومتیں فارس اور روم مدت دراز سے آپس میں ٹکراتی چلی آرہی تھیں۔ بالآخر فارس نے روم کو ایک فیصلہ کن شکست سے دوچار کردیا اور شام، مصر اور ایشیائے کو چک کے تمام ملک رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ایسے حالات میں قرآن نے پیشین گوئی فرمائی کہ بلاشبہ رومی اہل فارس سے مغلوب ہوچکے ہیں لیکن چند سالوں کے اندر اندر وہ فاتح بن کر ابھریں گے، چنانچہ ہرقل ایسے مایوس کن اور حوصلہ شکن حالات میں اپنا زائل شدہ اقتدار واپس لینے کے لیے سرگرم ہوگیا اور اس وقت نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مجھے فتح وکامرانی دی تو حمص سے پیدل چل کر بیت المقدس پہنچوں گا اور اللہ کا شکر ادا کروں گا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے رومی اہل کتاب کو ایرانی مجوسیوں پر غالب کردیا، چنانچہ ان دنوں ایفائے نذر کے لیے ہرقل بیت المقدس آیا ہوا تھا۔
3۔ ہرقل کے حوالے سے اس حدیث کا تعلق گویا کتاب بدء الوحی اور کتاب الایمان دونوں سے ہے۔ وحی کے ساتھ تعلق بایں طور ہے کہ ہرقل جو عیسائی مذہب کاحامل تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کیا جو وحی کا نتیجہ ہے۔ اور اس حدیث کا مابعد کتاب، کتاب الایمان سے تعلق اس طرح ہے کہ ایمان کی امتیازی علامت عمل ومتابعت ہے جو ہرقل میں نہ تھی، تصدیق جلی اور اقرار موجود ہے لیکن اس کے مطابق عمل نہ کرنے سے کافر ہی رہا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کو حدیث نیت سے شروع کیا تھا، گویا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر ہرقل کی نیت درست تھی تو اسے کچھ فائدہ پہنچنے کی امید ہے، بصورت دیگر اس کے مقدر میں ہلاکت اور تباہی کےسوا کچھ نہیں۔ (فتح الباري: 1؍61)
4۔ ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوکبشہ کی طرف منسوب کیا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔ دراصل عرب کا یہ طریقہ ہے کہ کسی کو تحقیر واستہزا کے پیش نظر اسے ایسے شخص کی طرف منسوب کردیتے ہیں جو گمنام ہو لیکن اس مقام پر اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ابوکبشہ نامی ایک شخص بھی گزرا تھا جس نے اپنا آبائی دین چھوڑ کر شعریٰ ستارے کی پرستش شروع کردی تھی۔چونکہ ابو کبشہ نے ایک نیا دین اختیار کیاتھا۔ اس لیے ہر وہ شخص جو عرب کے آبائی دین سے ہٹ کر نیا دین اختیار کرتا، اسے ابن ابی کبشہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ (فتح الباري: 1؍57) اس سلسلے میں کچھ اور تاویلات بھی کی گئی ہیں، ان تمام میں قدرمشترک یہی ہے کہ ابوسفیان نے مذاق اور حقارت سے یہ اسلوب اختیار کیا۔
5۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرکافر کسی لقب سے معروف ومشہور ہوتو مسلمانوں کے لیے اسے اس کے لقب سے پکارنا جائز ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو عظیم الروم کے لقب سے یاد کیا۔ اسلام دشمنوں کےساتھ نرمی اور ملاطفت کاطریقہ سکھاتا ہے، اس لیے کسی قوم کے معززو مکرم شخص کے لیے اونچے القاب استعمال کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں۔ اس کا کم از کم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن اگردوستی پر آمادہ نہ ہوتو دشمنی میں کمی ضرور آجاتی ہے ہرقل چونکہ رومیوں کی نظر میں باعظمت تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسےمروجہ لقب ہی سے یاد کیا ہے۔
6۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اختتام پر ایسے الفاظ لاتے ہیں جن سے پڑھنے والے کے لیے اپنی آخرت کے متعلق غوروفکر کرنے کی راہیں کھلتی ہیں وقت گزرجاتا ہے عمرختم ہوجاتی ہے لیکن انسان کے اچھے یا بُرے اعمال کے اثرات ختم نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اچھائی یا بُرائی کامعاملہ اس کے خاتمے سے ہوتا ہے۔ ہرقل کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا، وہ ایمان نہ لاسکا حالانکہ اسے بہترین مواقع میسر آئے تھے۔ بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو انجام اور خاتمے کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ہرقل کا انجام جنت ہوگا یا دوزخ؟ اس سے قطع نظر، تم اپنے خاتمے پر غوروفکر کرو اورآخری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری میں اپنے آپ کو مصروف کرو۔
7۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کی چھ احادیث سے یہ سمجھایا ہے کہ آگے کتاب میں جس قدر احکام ومسائل آئیں گے وہ سب وحی الٰہی سے ماخوذ ہیں جو محفوظ عن الخطا اور نہایت ہی عظیم الشان ہیں۔ اور وحی کی عظمت بیان کرنے کے بعد سب سے پہلے کتاب الایمان لائے ہیں جو دین اسلام کی خشت اول ہے اور اسی ایمان پر آخرت میں نجات کامدار ہے۔