تشریح:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کے رسول اللہ ﷺ کی مرض وفات کے وقت والی امامت کے متعلق درج ذیل تین احتمالات ہو سکتے ہیں:٭ رسول اللہ ﷺ امام تھے اور حضرت ابو بکر ؓ ایک مبلغ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کی تکبیرات لوگوں تک پہنچاتے تھے، جیسا کہ حدیث: (712) میں ہے۔٭ حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابوبکر کی اقتدا کررہے تھے۔ اس صورت میں دو امام ہوں گے: ایک رسول اللہ ﷺ اور دوسرے ابوبکر ؓ ۔ ٭ حضرت ابوبکر ؓ امام تھے اور رسول اللہ ﷺ مقتدی کی حیثیت سے معذوری کی بنا پر بائیں جانب بیٹھے تھے، لیکن یہ آخری احتمال بہت بعید ہے کیونکہ مقتدی امام کی دائیں جانب ہوتا ہے۔ یہ عذر کہ معذوری کی وجہ سے بائیں جانب بیٹھے تھے، یہ اتنا وزنی نہیں، کیونکہ جب بیٹھنا ہے تو پھر دائیں یا بائیں بیٹھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس لیے ہماری رائے کے مطابق یہ آخری احتمال مردوداور ناقابل اعتبار ہے۔ دوسرے احتمال کی حیثیت بھی انتہائی مخدوش ہے، کیونکہ کسی جماعت میں بیک وقت دو امام ہوں اس کا ثبوت سرے سے موجود نہیں۔ ظاہری الفاظ سے شریعت سے اس قدر ہٹا ہوا مسئلہ کشید نہیں کیا جاسکتا۔ بعض حضرات نے امام بخاری ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا رجحان دوسرے احتمال کی طرف ہے۔ امام بخاری ؒ کی جلالت شان اس قسم کے احتمالات سے بالاتر ہے۔ اس قسم کے احتمالات سخن سازی کے علاوہ کچھ نہیں۔ سیدھی اور صاف بات یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ امام تھے اور حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے افعال و اعمال کی اقتدا کر رہے تھے اور ان کی تکبیرات کو لوگوں تک پہنچانے والے تھے۔ والله أعلم۔