تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ضرورت سے زائد علوم کاسیکھنا تضییع اوقات نہیں بلکہ فضیلت کی چیزہے۔ ضروری نہیں کہ انسان وہی کچھ سیکھے جو اس کی ذاتی عملی زندگی کے لیے کارآمد ہو بلکہ وہ احکام ومسائل سیکھنے بھی ضروری ہیں جو مکلف کی اپنی ذات سے متعلق نہ ہوں تاکہ دوسروں کی دینی ضروریات کوپوراکرکے ثواب دارین حاصل کیا جائے، اس لیے ضرورت سے زائد علم کی تحصیل کے لیے وقت صرف کرنا قابل مدح فعل ہے۔ اور اس کے لیے سفر کرنا بھی ممدوح ہے۔
2۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواب میں دودھ پینے کی تعبیر علم کا حصول ہے، نیز اگردودھ کی سیرابی ناخنوں میں دیکھے تو اس سے علم کی سیرابی مراد لی جاسکتی ہے۔ بھرے ہوئے دودھ کے پیالے سے مراد علم تام ہے۔ دودھ سے شکم سیری سے مراد مجسمہ علم وعرفان بن جانا ہے۔
3۔ فاضل از حاجت کے ساتھ وہی عمل کرنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ علم جس قدر حاصل کر سکتے ہو کیونکہ یہ اللہ کا انعام وفضل ہے۔ بقدر ضرورت خود فائدہ اٹھاؤ اور زائد کو دوسروں کی ضروریات میں صرف کرو۔ تعلیم کا سلسلہ شروع کرو، علاقے میں تبلیغ کا فیضان جاری کرو، لوگوں کے جھگڑے شریعت کے مطابق نمٹاؤ، ہنگامی مسائل کے لیے فتاویٰ دو۔ الغرض بے شمار مقاصد ہیں جن کے لیے زائد علم کی ضرورت ہے۔ جس قدر علم زائد ہوگا اسی قدر قلب میں بصیرت اور روح میں تازگی ہوگی۔
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا دودھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا اوراس کی تعبیر بھی علم سے فرمادی۔ شاید ہی دین کا کوئی باب ایسا ہو جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت یا اثر نہ ملتا ہو۔ مسائل واحکام، فضائل وآداب تک سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علوم حاوی ہیں۔ بعض لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس فضیلت کا توڑ کرنے کے لیے’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کادروازہ ہے‘‘ جیسی خود ساختہ حدیث بنا ڈالی۔ اس مقام پر یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو صدیق اکبر ہی ہیں، ان سے کسی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔