باب: اس بیان میں کہ (غسل) میت کی دائیں طرف سے شروع کیا جائے
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To start from the right side while giving a bath to a dead body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1255.
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی کو غسل دینے کے متعلق فرمایا: ’’ان کی دائیں اطراف اور وضو کے مقامات سے غسل کا آغاز کریں۔‘‘
تشریح:
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر اچھے کام کو دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے اور آپ کو دائیں جانب پسند ہوتی تھی۔ امام بخاری ؒ نے عنوان مطلق رکھا ہے تاکہ غیر غسل کو غسل پر قیاس کیا جا سکے۔ حدیث میں دائیں اطراف اور مقامات وضو کا ذکر ہے۔ ان دونوں میں منافات نہیں کیونکہ بعض اوقات دائیں اطراف اور مقامات وضو کو بیک وقت بھی دھویا جا سکتا ہے، پھر جو اعضاء وضو میں نہیں دھوئے جاتے غسل کے وقت ان کی دائیں جانب کو دھویا جائے۔ دراصل امام بخاریؒ، ابو قلابہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت پہلے سر پھر داڑھی سے آغاز کیا جائے۔( فتح الباري: 168/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1223
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1255
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1255
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1255
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی کو غسل دینے کے متعلق فرمایا: ’’ان کی دائیں اطراف اور وضو کے مقامات سے غسل کا آغاز کریں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر اچھے کام کو دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے اور آپ کو دائیں جانب پسند ہوتی تھی۔ امام بخاری ؒ نے عنوان مطلق رکھا ہے تاکہ غیر غسل کو غسل پر قیاس کیا جا سکے۔ حدیث میں دائیں اطراف اور مقامات وضو کا ذکر ہے۔ ان دونوں میں منافات نہیں کیونکہ بعض اوقات دائیں اطراف اور مقامات وضو کو بیک وقت بھی دھویا جا سکتا ہے، پھر جو اعضاء وضو میں نہیں دھوئے جاتے غسل کے وقت ان کی دائیں جانب کو دھویا جائے۔ دراصل امام بخاریؒ، ابو قلابہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت پہلے سر پھر داڑھی سے آغاز کیا جائے۔( فتح الباري: 168/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کے غسل کے وقت فرمایا تھا کہ دائیں طرف سے اور اعضاء وضو سے غسل شروع کرنا۔
حدیث حاشیہ:
ہر اچھاکام دائیں طرف سے شروع کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um 'Atiyya (RA): Allah's Apostle (ﷺ) , concerning his (dead) daughter's bath, said, "Start with the right side, and the parts which are washed in ablution."