باب: میت کے غسل میں کافور کا استعمال آخر میں ایک بار کیا جائے
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To sprinkle camphor on the dead body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1259.
حضرت ام عطیہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’اسے تین بار یا پانچ بار یا سات بار اور اگر مناسب خیال کرو تو اس سے بھی زیادہ بار غسل دو۔‘‘ حفصہ نے کہا کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا :ہم نے اس کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنائیں۔
تشریح:
میت کو غسل دیتے وقت جب میت پر آخری مرتبہ پانی بہانا ہو تو اس میں کچھ کافور ملا لیا جائے تاکہ اس کے بدن کو ٹھنڈک پہنچے اور وہ خوشبودار ہو جائے۔ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ کافور استعمال کرنے سے جسم خراب نہیں ہوتا اور اسے حشرات الارض نقصان نہیں پہنچا سکتے، یعنی وہ موذی چیزوں سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ کافور کے علاوہ کوئی بھی خوشبودار کیمیکل استعمال کیا جا سکتا ہے، عطر وغیرہ بھی اس پر چھڑکا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1227
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1259
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1259
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1259
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ام عطیہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’اسے تین بار یا پانچ بار یا سات بار اور اگر مناسب خیال کرو تو اس سے بھی زیادہ بار غسل دو۔‘‘ حفصہ نے کہا کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا :ہم نے اس کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنائیں۔
حدیث حاشیہ:
میت کو غسل دیتے وقت جب میت پر آخری مرتبہ پانی بہانا ہو تو اس میں کچھ کافور ملا لیا جائے تاکہ اس کے بدن کو ٹھنڈک پہنچے اور وہ خوشبودار ہو جائے۔ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ کافور استعمال کرنے سے جسم خراب نہیں ہوتا اور اسے حشرات الارض نقصان نہیں پہنچا سکتے، یعنی وہ موذی چیزوں سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ کافور کے علاوہ کوئی بھی خوشبودار کیمیکل استعمال کیا جا سکتا ہے، عطر وغیرہ بھی اس پر چھڑکا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ام عطیہ ؓ نے اس روایت میں یوں کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ یا اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیا دہ غسل دے سکتی ہو۔ حفصہ نے بیان کیا کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا کہ ہم نے ان کے سر کے بال تین لٹوں میں تقسیم کر دیئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
" And Um 'Atiyya (in another narration) added, "The Prophet (ﷺ) said, 'Wash her three, five or seven times or more, if you think it necessary.' " Hafsah (RA) said that Um 'Atiyya had also said, "We entwined her hair into three braids."