1272
.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ قال ابو عبدالله ابو نعيم لا يقول ثلاثة و عبدالله بن الوليد عن سفيان يقول ثلاثة
صحیح بخاری:
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
(
باب: بغیر قمیص کے کفن دینا
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To shroud (a dead) body without using a shirt)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1272.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ ر سول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ان میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ۔
تشریح:
(1) سحول، یمن کے ایک گاؤں کا نام ہے جس میں سوتی کپڑے تیار ہوتے تھے۔ اس کی طرف منسوب کپڑوں کو سحولیہ کہا جاتا تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک یمنی دھاری دار چادر میں لپیٹ دیا گیا تھا جو عبداللہ بن ابی بکر ؓ کی تھی، پھر بعد میں اسے اتار دیا گیا تھا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2180 (941)) (2) مزید برآں اس روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ نے اس چادر کو اپنے کفن کے لیے رکھ لیا لیکن بعد میں خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس قسم کے کفن سے خوش ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو ضرور اس میں کفن دیا جاتا۔ پھر انہوں نے اس چادر کو فروخت کر کے اس کی قیمت کو صدقہ کر دیا۔ (3) رسول اللہ ﷺ کو اس چادر میں پہلے اس لیے لپیٹا گیا تھا تاکہ اس کے ذریعے سے آپ کا جسم مبارک خشک ہو جائے۔ اس کے بعد تین چادروں کو استعمال کیا گیا۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1240
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1272
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1272
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1272
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ ر سول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ان میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ۔
حدیث حاشیہ:
(1) سحول، یمن کے ایک گاؤں کا نام ہے جس میں سوتی کپڑے تیار ہوتے تھے۔ اس کی طرف منسوب کپڑوں کو سحولیہ کہا جاتا تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک یمنی دھاری دار چادر میں لپیٹ دیا گیا تھا جو عبداللہ بن ابی بکر ؓ کی تھی، پھر بعد میں اسے اتار دیا گیا تھا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2180 (941)) (2) مزید برآں اس روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ نے اس چادر کو اپنے کفن کے لیے رکھ لیا لیکن بعد میں خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس قسم کے کفن سے خوش ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو ضرور اس میں کفن دیا جاتا۔ پھر انہوں نے اس چادر کو فروخت کر کے اس کی قیمت کو صدقہ کر دیا۔ (3) رسول اللہ ﷺ کو اس چادر میں پہلے اس لیے لپیٹا گیا تھا تاکہ اس کے ذریعے سے آپ کا جسم مبارک خشک ہو جائے۔ اس کے بعد تین چادروں کو استعمال کیا گیا۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحیٰی ٰ نے‘ ان سے ہشام نے‘ ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے‘ ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ تھا۔ حضرت امام ابوعبداللہ بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے لفظ ثلاثة نہیں کہا اور عبداللہ بن ولید نے سفیان سے لفظ ثلاثة نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was shrouded in three pieces of cloth and neither a shirt nor a turban were used.