Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Using no turban in shrouding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1273.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیاگیا جن میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ ہی تھا۔
تشریح:
(1) امام مالک ؓ کے نزدیک کفن میں عمامہ ہونا بھی مستحب ہے جبکہ مذکورہ حدیث میں اس کی نفی ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان مالکی حضرات کی تردید میں قائم کیا ہے۔ جامع ترمذی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں لوگوں کی اس بات کا ذکر ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفن دیا گیا تھا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ کفن کے لیے چادر لائی گئی تھی، لیکن اس میں کفن دینے کے بجائے اسے واپس کر دیا گیا تھا۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 996) لیکن رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس کے ہاں مالی وسعت ہو اسے دھاری دار چادر میں کفن دیا جائے۔ (مسند أحمد: 335/3) (2) دھاری دار چادر کا ہونا سفید کپڑوں کے منافی نہیں کیونکہ تین کپڑوں میں اگر ایک چادر دھاری دار ہو تو دونوں احادیث پر عمل ہو سکتا ہے۔ (أحکام الجنائز، ص:83) حافظ ابن حجر ؓ نے طبقات ابن سعد کے حوالے سے ان تین کپڑوں کی تفصیل دی ہے کہ ان میں ایک اوڑھنے کی چادر، دوسری پہننے کی چادر اور تیسری بڑی چادر لپیٹنے کے لیے تھی۔ (فتح الباري: 179/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1241
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1273
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1273
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1273
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیاگیا جن میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ ہی تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام مالک ؓ کے نزدیک کفن میں عمامہ ہونا بھی مستحب ہے جبکہ مذکورہ حدیث میں اس کی نفی ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان مالکی حضرات کی تردید میں قائم کیا ہے۔ جامع ترمذی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں لوگوں کی اس بات کا ذکر ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفن دیا گیا تھا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ کفن کے لیے چادر لائی گئی تھی، لیکن اس میں کفن دینے کے بجائے اسے واپس کر دیا گیا تھا۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 996) لیکن رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس کے ہاں مالی وسعت ہو اسے دھاری دار چادر میں کفن دیا جائے۔ (مسند أحمد: 335/3) (2) دھاری دار چادر کا ہونا سفید کپڑوں کے منافی نہیں کیونکہ تین کپڑوں میں اگر ایک چادر دھاری دار ہو تو دونوں احادیث پر عمل ہو سکتا ہے۔ (أحکام الجنائز، ص:83) حافظ ابن حجر ؓ نے طبقات ابن سعد کے حوالے سے ان تین کپڑوں کی تفصیل دی ہے کہ ان میں ایک اوڑھنے کی چادر، دوسری پہننے کی چادر اور تیسری بڑی چادر لپیٹنے کے لیے تھی۔ (فتح الباري: 179/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے، ان سے عائشہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ کو سحول کے تین سفید کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا نہ ان میں قمیص تھی اور نہ عمامہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ چوتھا کپڑا نہ تھا۔ قسطلانی نے کہا امام شافعی ؒ نے قمیص پہنانا جائز رکھا ہے مگر اس کو سنت نہیں سمجھا اور ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا فعل ہے جسے بیہقی نے نکالا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا۔ تین لفافے اور ایک قمیص اور ایک عمامہ لیکن شرح مہذب میں ہے کہ قمیص اور عمامہ نہ ہو۔ اگرچہ قمیص اور عمامہ مکروہ نہیں مگر اولیٰ کے خلاف ہے (وحیدی) بہتر یہی ہے کہ صرف تین چادروں میں کفن دیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was shrouded in three pieces of cloth which were made of white Suhul and neither a shirt nor a turban were used.