Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The giving of Zakat to relatives)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے ( زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی ) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ‘ ناطہ جوڑنے اور صدقے کا۔اہلحدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یا خاوند بیوی کو یا بیوی خاوند کو دے۔بعضوں نے کہا اپنے چھوڑے بچے کو فرض زکوٰۃ دینا بالاجماع درست نہیں اور امام ابوجنیفہ اور امام مالک نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے۔مترجم(مولانا وحید الزماں مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوٰۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہوتا کیسا ؟(وحیدی)۔رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کی آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اور یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی ۔ (وحیدی)
1461.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ میں تمام انصار سے زیادہ مالدار اور کھجوروں کے باغات رکھنے والے تھے، انھیں سب سے زیادہ پسند بیر حاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا، وہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور اس کا خوش گوار پانی نوش فرماتے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘ تو حضرت طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘ اور میرا سب سے محبوب مال بیرحاء ہے، لہٰذاوہ آج سے اللہ کی راہ میں وقف ہے اور میں اللہ کے ہاں اس کے ثواب اور آخرت میں اس کے ذخیرہ ہونے کا امیدوارہوں۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ آپ اسے اللہ کے حکم کے مطابق مصرف میں لے آئیں، حضرت انس ؓ کا بیان ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بہت خوب!یہ تو بہت نفع بخش سامان ہے، یہ تو واقعی نفع بخش مال ہے، اور جو کچھ تم نے کہا میں نے سن لیا ہے اور میرا مشورہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔‘‘حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا، چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ روح نے امام مالک سے روایت کرنے میں عبد اللہ بن یوسف کی متابعت کی ہے اور ایک روایت میں رابح کے بجائے رایح کے الفاظ منقول ہیں جس کے معنی ہیں:’’یہ تو چلتا ہوا مال ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے، کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مشورہ دیا تھا، خاص طور پر جب رشتہ دار محتاج اور نادار ہوں تو انہیں ترجیح دینی چاہیے، تاہم جن رشتہ داروں کی کفالت انسان کی ذمہ داری میں شامل ہو ان پر فرض زکاۃ خرچ نہیں کی جا سکتی۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنا پسندیدہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بہت فضیلت کا باعث اور حصول نیکی کا ذریعہ ہے، نیز صدقات و خیرات کے وقت اہل فضل سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ (3) راوی حدیث روح بن عبادہ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، تفسیرالقرآن، حدیث:4554) (4) دوسری روایات جن میں رايح کے الفاظ ہیں، اس کے معنی ہیں: یہ تو چلتا ہوا مال ہے، یعنی نفع خوب دینے والا ہے اور بھرپور فائدہ پہنچانے والا ہے۔ اس سلسلے میں یحییٰ بن یحییٰ کی روایت کو کتاب الوکالۃ اور اسماعیل بن ابی اویس کی روایت کو کتاب التفسیر میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الوکالة، حدیث:2318، و کتاب التفسیر، حدیث:4554، وفتح الباري:411/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1423
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1461
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1461
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1461
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
مذکورہ ارشاد گرامی ایک حدیث کا حصہ ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی سے متعلق ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1466)
اور نبی کریم ﷺ نے ( زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی ) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ‘ ناطہ جوڑنے اور صدقے کا۔اہلحدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یا خاوند بیوی کو یا بیوی خاوند کو دے۔بعضوں نے کہا اپنے چھوڑے بچے کو فرض زکوٰۃ دینا بالاجماع درست نہیں اور امام ابوجنیفہ اور امام مالک نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے۔مترجم(مولانا وحید الزماں مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوٰۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہوتا کیسا ؟(وحیدی)۔رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کی آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اور یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی ۔ (وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ میں تمام انصار سے زیادہ مالدار اور کھجوروں کے باغات رکھنے والے تھے، انھیں سب سے زیادہ پسند بیر حاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا، وہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور اس کا خوش گوار پانی نوش فرماتے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘ تو حضرت طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘ اور میرا سب سے محبوب مال بیرحاء ہے، لہٰذاوہ آج سے اللہ کی راہ میں وقف ہے اور میں اللہ کے ہاں اس کے ثواب اور آخرت میں اس کے ذخیرہ ہونے کا امیدوارہوں۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ آپ اسے اللہ کے حکم کے مطابق مصرف میں لے آئیں، حضرت انس ؓ کا بیان ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بہت خوب!یہ تو بہت نفع بخش سامان ہے، یہ تو واقعی نفع بخش مال ہے، اور جو کچھ تم نے کہا میں نے سن لیا ہے اور میرا مشورہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔‘‘حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا، چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ روح نے امام مالک سے روایت کرنے میں عبد اللہ بن یوسف کی متابعت کی ہے اور ایک روایت میں رابح کے بجائے رایح کے الفاظ منقول ہیں جس کے معنی ہیں:’’یہ تو چلتا ہوا مال ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے، کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مشورہ دیا تھا، خاص طور پر جب رشتہ دار محتاج اور نادار ہوں تو انہیں ترجیح دینی چاہیے، تاہم جن رشتہ داروں کی کفالت انسان کی ذمہ داری میں شامل ہو ان پر فرض زکاۃ خرچ نہیں کی جا سکتی۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنا پسندیدہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بہت فضیلت کا باعث اور حصول نیکی کا ذریعہ ہے، نیز صدقات و خیرات کے وقت اہل فضل سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ (3) راوی حدیث روح بن عبادہ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، تفسیرالقرآن، حدیث:4554) (4) دوسری روایات جن میں رايح کے الفاظ ہیں، اس کے معنی ہیں: یہ تو چلتا ہوا مال ہے، یعنی نفع خوب دینے والا ہے اور بھرپور فائدہ پہنچانے والا ہے۔ اس سلسلے میں یحییٰ بن یحییٰ کی روایت کو کتاب الوکالۃ اور اسماعیل بن ابی اویس کی روایت کو کتاب التفسیر میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الوکالة، حدیث:2318، و کتاب التفسیر، حدیث:4554، وفتح الباري:411/3)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: "رشتہ داروں کو زکاۃ دینے سے دوہرا اجر ملتا ہے: ایک قرابت داری(صلہ رحمی) کا اور دوسرا صدقہ وخیرات کرنے کا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام مالک ؓ نے بیان کیا ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ کہ انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ ؓ مدینہ میں انصارمیں سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے۔ اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاء کا باغ تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَن تَنالُوا البِرالخ﴾ یعنی ’’تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔‘‘ یہ سن کر ابوطلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ اور مجھے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرئہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ خوب! یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے۔ یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے۔ اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی۔ اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو۔ ابوطلحہ ؓ نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متابعت روح نے کی ہے۔ یحیٰی بن یحیٰی اور اسماعیل نے مالک کے واسطہ سے ( رابح کے بجائے ) رائح نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے۔ یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کرسکتی ہے۔ اور گویہ صدقہ فرض زکوٰۃ نہ تھا۔ مگر فرض زکوٰۃ کو بھی اس پر قیاس کیاہے۔ بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہوجیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔ اور چونکہ عبداللہ بن مسعود ؓ زندہ تھے‘ اس لیے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پر واجب نہ تھا۔ لہٰذا ماں کو اس پر خیرات خرچ کرنا جائز ہوا۔ واللہ أعلم۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ishaq bin 'Abdullah bin Al Talha (RA): I heard Anas bin Malik (RA) saying, "Abu Talha had more property of date-palm trees gardens than any other amongst the Ansar in Madinah and the most beloved of them to him was Bairuha garden, and it was in front of the Mosque of the Prophet (ﷺ) . Allah's Apostle (ﷺ) used to go there and used to drink its nice water." Anas added, "When these verses were revealed:--'By no means shall you Attain righteousness unless You spend (in charity) of that Which you love. ' (3.92) Abu Talha said to Allah's Apostle (ﷺ) 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allah, the Blessed, the Superior says: By no means shall you attain righteousness, unless you spend (in charity) of that which you love. And no doubt, Bairuha' garden is the most beloved of all my property to me. So I want to give it in charity in Allah's Cause. I expect its reward from Allah. O Allah's Apostle (ﷺ) ! Spend it where Allah makes you think it feasible.' On that Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Bravo! It is useful property. I have heard what you have said (O Abu Talha), and I think it would be proper if you gave it to your kith and kin.' Abu Talha said, I will do so, O Allah's Apostle.' Then Abu Talha distributed that garden amongst his relatives and his cousins." ________