Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The giving of Zakat to relatives)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے ( زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی ) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ‘ ناطہ جوڑنے اور صدقے کا۔اہلحدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یا خاوند بیوی کو یا بیوی خاوند کو دے۔بعضوں نے کہا اپنے چھوڑے بچے کو فرض زکوٰۃ دینا بالاجماع درست نہیں اور امام ابوجنیفہ اور امام مالک نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے۔مترجم(مولانا وحید الزماں مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوٰۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہوتا کیسا ؟(وحیدی)۔رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کی آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اور یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی ۔ (وحیدی)
1462.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لے گئے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور انھیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، فرمایا:’’لوگو! صدقہ کیا کرو۔‘‘ پھر عورتوں کےپاس گئے اورفرمایا:’’اے عورتوں کی جماعت!صدقہ کرو، میں نے تمھیں بکثرت جہنم میں دیکھا ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ایسا کیوں ہے؟آپ نے فرمایا:’’تم لعن و طعن بہت کرتی ہواور اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو، اے عورتو!میں نے عقل ودین میں تم سے زیادہ ناقص کسی کو نہیں دیکھا جو بڑے زیرک ودانا کی عقل کو مضمحل کردے۔‘‘ پھر آپ ﷺ واپس ہوئے، جب گھر تشریف لائےتو ابن مسعود ؓ کی بیوی حضرت زینب ؓ آئیں اور آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی ، چنانچہ عرض کیا گیا :اللہ کے رسول اللہ ﷺ !زینب آئی ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا:’’ کون سی زینب؟‘‘ عرض کیا گیا : ابن مسعود ؓ کی بیوی ۔ آپ نے فرمایا:’’اچھا!انھیں اجازت دے دو۔‘‘ چنانچہ اجازت دی گئی۔ اس نے عرض کیا:اللہ کے نبی ﷺ !آپ نے آج صدقہ دینے کا حکم دیا ہے اور میرے پاس کچھ زیور ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اسے خیرات کردوں۔ مگر ابن مسعود ؓ کا خیال ہے کہ وہ اور اس کے بچے زیادہ مستحق ہیں کہ انھیں صدقہ دوں، تب نبی ﷺ نے فرمایا:’’ابن مسعود نے صحیح کہا ہے، تمھارے خاوند اور تمھارے بچے اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان کو صدقہ دو۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی اپنے نادار خاوند اور ماں اپنے مفلس بچوں پر خیرات کر سکتی ہے اور انہیں زکاۃ بھی دے سکتی ہے۔ حضرت زینب ؓ کا زیورات کے متعلق سوال کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ فرض زکاۃ کے بارے میں تھا۔ اگر اسے نفلی صدقہ پر محمول کر لیا جائے تو امام بخاری ؒ نے اس پر فرض صدقہ کو قیاس کیا ہے۔ (2) حضرت زینب کا دوسرا نام رائطہ ہے۔ ان کے متعلق ایک اور واقعہ بھی احادیث میں منقول ہے کہ یہ دستکاری کی ماہر تھیں اور اسے انہوں نے ذریعہ معاش بنایا تھا۔ اس کمائی سے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے بچوں پر خرچ کرتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے کہا: ایسے حالات میں صدقہ و خیرات کے لیے کچھ بھی پس انداز نہیں ہوتا، نہ کسی دوسرے پر خیرات کرنے کا موقع ہی ملتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اگر تجھے اس سے ثواب کی امید نہیں تو بلاشبہ ہم پر خرچ کرنا چھوڑ دو، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ان پر خرچ کرنے سے مجھے کوئی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ان پر خرچ کرتی رہو تمہیں اس پر اجروثواب ضرور ملے گا۔‘‘(مسندأحمد:503/3) (3) روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ٹانگوں سے کچھ معذور تھے اور زیادہ محنت و مزدوری کرنے کے قابل نہ تھے، اس لیے ان کی بیوی گھر کے اخراجات پورے کرتی تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1424
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1462
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1462
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1462
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
مذکورہ ارشاد گرامی ایک حدیث کا حصہ ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی سے متعلق ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1466)
اور نبی کریم ﷺ نے ( زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی ) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ‘ ناطہ جوڑنے اور صدقے کا۔اہلحدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یا خاوند بیوی کو یا بیوی خاوند کو دے۔بعضوں نے کہا اپنے چھوڑے بچے کو فرض زکوٰۃ دینا بالاجماع درست نہیں اور امام ابوجنیفہ اور امام مالک نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے۔مترجم(مولانا وحید الزماں مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوٰۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہوتا کیسا ؟(وحیدی)۔رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کی آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اور یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی ۔ (وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لے گئے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور انھیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، فرمایا:’’لوگو! صدقہ کیا کرو۔‘‘ پھر عورتوں کےپاس گئے اورفرمایا:’’اے عورتوں کی جماعت!صدقہ کرو، میں نے تمھیں بکثرت جہنم میں دیکھا ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ایسا کیوں ہے؟آپ نے فرمایا:’’تم لعن و طعن بہت کرتی ہواور اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو، اے عورتو!میں نے عقل ودین میں تم سے زیادہ ناقص کسی کو نہیں دیکھا جو بڑے زیرک ودانا کی عقل کو مضمحل کردے۔‘‘ پھر آپ ﷺ واپس ہوئے، جب گھر تشریف لائےتو ابن مسعود ؓ کی بیوی حضرت زینب ؓ آئیں اور آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی ، چنانچہ عرض کیا گیا :اللہ کے رسول اللہ ﷺ !زینب آئی ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا:’’ کون سی زینب؟‘‘ عرض کیا گیا : ابن مسعود ؓ کی بیوی ۔ آپ نے فرمایا:’’اچھا!انھیں اجازت دے دو۔‘‘ چنانچہ اجازت دی گئی۔ اس نے عرض کیا:اللہ کے نبی ﷺ !آپ نے آج صدقہ دینے کا حکم دیا ہے اور میرے پاس کچھ زیور ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اسے خیرات کردوں۔ مگر ابن مسعود ؓ کا خیال ہے کہ وہ اور اس کے بچے زیادہ مستحق ہیں کہ انھیں صدقہ دوں، تب نبی ﷺ نے فرمایا:’’ابن مسعود نے صحیح کہا ہے، تمھارے خاوند اور تمھارے بچے اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان کو صدقہ دو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی اپنے نادار خاوند اور ماں اپنے مفلس بچوں پر خیرات کر سکتی ہے اور انہیں زکاۃ بھی دے سکتی ہے۔ حضرت زینب ؓ کا زیورات کے متعلق سوال کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ فرض زکاۃ کے بارے میں تھا۔ اگر اسے نفلی صدقہ پر محمول کر لیا جائے تو امام بخاری ؒ نے اس پر فرض صدقہ کو قیاس کیا ہے۔ (2) حضرت زینب کا دوسرا نام رائطہ ہے۔ ان کے متعلق ایک اور واقعہ بھی احادیث میں منقول ہے کہ یہ دستکاری کی ماہر تھیں اور اسے انہوں نے ذریعہ معاش بنایا تھا۔ اس کمائی سے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے بچوں پر خرچ کرتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے کہا: ایسے حالات میں صدقہ و خیرات کے لیے کچھ بھی پس انداز نہیں ہوتا، نہ کسی دوسرے پر خیرات کرنے کا موقع ہی ملتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اگر تجھے اس سے ثواب کی امید نہیں تو بلاشبہ ہم پر خرچ کرنا چھوڑ دو، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ان پر خرچ کرنے سے مجھے کوئی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ان پر خرچ کرتی رہو تمہیں اس پر اجروثواب ضرور ملے گا۔‘‘(مسندأحمد:503/3) (3) روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ٹانگوں سے کچھ معذور تھے اور زیادہ محنت و مزدوری کرنے کے قابل نہ تھے، اس لیے ان کی بیوی گھر کے اخراجات پورے کرتی تھی۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: "رشتہ داروں کو زکاۃ دینے سے دوہرا اجر ملتا ہے: ایک قرابت داری(صلہ رحمی) کا اور دوسرا صدقہ وخیرات کرنے کا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی ‘ انہیں عیاض بن عبداللہ نے ‘ اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ ﷺ عیدالضحیٰ یا عید الفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر ( نماز کے بعد ) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا : لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ ﷺ عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو! پھر آپ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود ؓ کی بیوی زینب ؓ آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ ﷺ سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب ( کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں ) کہا گیا کہ ابن مسعود ؓ کی بیوی۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چنانچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ( میرے خاوند ) ابن مسعود ؓ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان ( مسکینوں ) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود ؓ نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طورپر دوگی۔ ( معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں )
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA) On 'Id ul Fitr or 'Id ul Adha Allah's Apostle (ﷺ) went out to the Musalla. After finishing the prayer, he delivered the sermon and ordered the people to give alms. He said, "O people! Give alms." Then he went towards the women and said. "O women! Give alms, for I have seen that the majority of the dwellers of Hell-Fire were you (women)." The women asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What is the reason for it?" He replied, "O women! You curse frequently, and are ungrateful to your husbands. I have not seen anyone more deficient in intelligence and religion than you. O women, some of you can lead a cautious wise man astray." Then he left. And when he reached his house, Zainab, the wife of Ibn Masud, came and asked permission to enter It was said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! It is Zainab." He asked, 'Which Zainab?" The reply was that she was the wife of Ibn Mas'ub. He said, "Yes, allow her to enter." And she was admitted. Then she said, "O Prophet (ﷺ) of Allah! Today you ordered people to give alms and I had an ornament and intended to give it as alms, but Ibn Masud said that he and his children deserved it more than anybody else." The Prophet (ﷺ) replied, "Ibn Masud had spoken the truth. Your husband and your children had more right to it than anybody else." ________