باب: جس نے نبی کریم ﷺکے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت نبی کریم کی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Whoever assumed Ihram with the same intention as that of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا ہے۔
1559.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے میری قوم کی طرف یمن بھیجا تو میں وہاں سے ایسے وقت میں واپس آیا جب آپ وادی بطحاء میں فروکش تھے۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: ’’تم نے کون سا احرام باندھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ کے مثل احرام باندھ دیاہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس قربانی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں!پھر میں نے آپ کے حکم کے مطابق بیت اللہ کاطواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی۔ پھر آپ نے مجھے احرام کھول دینے کا حکم دیا تو میں نے احرام کھول دیا۔ اس کے بعد میں اپنے گھر والوں میں سے ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی یا میرا سر دھویا۔ جب حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے تو آئے اور فرمانے لگے: اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں تو وہ حج اور عمرہ پورا کرنے کاحکم دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’حج اور عمرے کواللہ کے لیے پورا کرو۔‘‘ اور اگر ہم نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کریں تو آپ نے بھی قربانی سے پہلے احرام نہیں کھولا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں: جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ میرا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا ہے تو آپ نے دریافت فرمایا: ’’کیا تم اپنے ساتھ قربانی لائے ہو؟‘‘ میں نے کہا: نہیں! اس پر آپ نے فرمایا: ’’بیت اللہ کا طواف کرو اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کر کے احرام کی پابندی سے حلال ہو جاؤ۔‘‘ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4346) دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد میں اس کے مطابق لوگوں کو فتویٰ دیتا تھا کہ جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ پہلے عمرہ کرے، پھر الگ سے ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ کو حج کا احرام باندھے لیکن جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو میں نے ان سے اپنا موقف بیان کیا تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1724) حضرت عمر کی رائے تھے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں نہیں بدلنا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں وہ حج تمتع کے قائل نہیں تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں حضرت عمر کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے تو اس لیے احرام نہیں کھولا تھا کہ آپ کے ساتھ قربانی کا جانور تھا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی کی رائے قبول نہیں کرنی چاہیے۔ (2) الغرض امام بخاری ؒ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مبہم احرام باندھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت علی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسی طرح کا احرام باندھا تھا لیکن ایسا کرنا صرف زمانہ نبوی کے ساتھ خاص تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت علی ؓ کو ان کی نیت کے مطابق ان کے احرام پر برقرار رکھا گیا کیونکہ وہ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو طواف اور سعی کے بعد احرام کھول دینے کا حکم دیا کیونکہ ان کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔ اب چونکہ دین کی تکمیل ہو چکی ہے اور حج و عمرہ کے احرام واضح کر دیے گئے ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ﴾(البقرة:196:2)’’حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔‘‘ ان حالات میں کسی کو مبہم احرام باندھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہی اشارہ ملتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1518
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1559
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1559
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1559
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی کتاب المغازی، حدیث: 4353 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے احرام کا ذکر ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی مثل احرام باندھا تھا۔
یہ عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے میری قوم کی طرف یمن بھیجا تو میں وہاں سے ایسے وقت میں واپس آیا جب آپ وادی بطحاء میں فروکش تھے۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: ’’تم نے کون سا احرام باندھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ کے مثل احرام باندھ دیاہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس قربانی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں!پھر میں نے آپ کے حکم کے مطابق بیت اللہ کاطواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی۔ پھر آپ نے مجھے احرام کھول دینے کا حکم دیا تو میں نے احرام کھول دیا۔ اس کے بعد میں اپنے گھر والوں میں سے ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی یا میرا سر دھویا۔ جب حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے تو آئے اور فرمانے لگے: اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں تو وہ حج اور عمرہ پورا کرنے کاحکم دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’حج اور عمرے کواللہ کے لیے پورا کرو۔‘‘ اور اگر ہم نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کریں تو آپ نے بھی قربانی سے پہلے احرام نہیں کھولا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں: جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ میرا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا ہے تو آپ نے دریافت فرمایا: ’’کیا تم اپنے ساتھ قربانی لائے ہو؟‘‘ میں نے کہا: نہیں! اس پر آپ نے فرمایا: ’’بیت اللہ کا طواف کرو اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کر کے احرام کی پابندی سے حلال ہو جاؤ۔‘‘ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4346) دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد میں اس کے مطابق لوگوں کو فتویٰ دیتا تھا کہ جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ پہلے عمرہ کرے، پھر الگ سے ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ کو حج کا احرام باندھے لیکن جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو میں نے ان سے اپنا موقف بیان کیا تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1724) حضرت عمر کی رائے تھے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں نہیں بدلنا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں وہ حج تمتع کے قائل نہیں تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں حضرت عمر کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے تو اس لیے احرام نہیں کھولا تھا کہ آپ کے ساتھ قربانی کا جانور تھا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی کی رائے قبول نہیں کرنی چاہیے۔ (2) الغرض امام بخاری ؒ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مبہم احرام باندھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت علی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسی طرح کا احرام باندھا تھا لیکن ایسا کرنا صرف زمانہ نبوی کے ساتھ خاص تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت علی ؓ کو ان کی نیت کے مطابق ان کے احرام پر برقرار رکھا گیا کیونکہ وہ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو طواف اور سعی کے بعد احرام کھول دینے کا حکم دیا کیونکہ ان کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔ اب چونکہ دین کی تکمیل ہو چکی ہے اور حج و عمرہ کے احرام واضح کر دیے گئے ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ﴾(البقرة:196:2)’’حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔‘‘ ان حالات میں کسی کو مبہم احرام باندھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہی اشارہ ملتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
اس امر کو حضرت عبداللہ بن عمرؓنے نبی کریم ﷺسے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے میری قوم کے پاس یمن بھیجا تھا۔ جب (حجۃ الوداع کے موقع پر) میں آیا تو آپ سے بطحاء میں ملاقات ہوئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کس کا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کی کہ آنحضور ﷺ نے جس کا باندھا ہو آپ نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ قربانی ہے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں، اس لئے آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مر وہ کی سعی کروں۔ اس کے بعد آپ نے احرام کھول دینے کے لئے فرمایا۔ چنانچہ میں اپنی قوم کی ایک خاتون کے پاس آیا۔ انہوں نے میرے سرکا کنگھا کیا یا میراسرد ھویا۔ پھر حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ کی کتاب پر عمل کریں تو وہ یہ حکم دیتی ہے کہ حج اور عمرہ پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’اور حج اور عمرہ پورا کرو اللہ کی رضا کے لئے۔“ اور اگر ہم آنحضرت ﷺ کی سنت کو لیں تو آنحضرت ﷺ نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک آپ نے قربانی سے فراغت نہیں حاصل فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمرؓ کی رائے اس باب میں درست نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے احرام نہیں کھولا اس کی وجہ بھی آپ نے خود بیان فرمائی تھی کہ آپ کے ساتھ ہدی تھی۔ جن کے ساتھ ہدی نہ تھی ان کا احرام خود آنحضرت ﷺ نے کھلوادیا۔ پس جہاں صاف صریح حدیث نبوی موجود ہو وہاں کسی کی بھی رائے قبول نہیں کی جاسکتی خواہ وہ حضرت عمر ؓ ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرات مقلدین کو یہاں غور کرنا چاہئے کہ جب حضرت عمر ؓ جیسے خلیفہ راشدجن کی پیروی کرنے کا خاص حکم نبوی ہے اقتدو بالذین من بعدي أبي بکر وعمر حدیث کے خلاف قابل اقتداء نہ ٹھہرے تو اور کسی امام یا مجتہد کی کیا بساط ہے۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) sent me to some people in Yemen and when I returned, I found him at Al-Batha. He asked me, "With what intention have you assumed Ihram (i.e. for Hajj or for Umra or for both?") I replied, "I have assumed Ihram with an intention like that of the Prophet." He asked, "Have you a Hadi with you?" I replied in the negative. He ordered me to perform Tawaf round the Ka’bah and between Safa and Marwa and then to finish my Ihram. I did so and went to a woman from my tribe who combed my hair or washed my head. Then, when Umar came (i.e. became Caliph) he said, "If we follow Allah's Book, it orders us to complete Hajj and Umra; as Allah says: "Perform the Hajj and Umra for Allah." (2.196). And if we follow the tradition of the Prophet (ﷺ) who did not finish his Ihram till he sacrificed his Hadi." ________