باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Hajj-at-Tamattu', Hajj-al-Qiran, and Hajj-al-Ifrad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1566.
حضرت حفصہ ؓ جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں، ان سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !کیا وجہ کے لوگوں نے تو عمرہ کرکے احرام کھول دیا ہے لیکن آپ نے عمرہ مکمل کرنے کے باوجود احرام نہیں کھولا ہے؟آپ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے بال جمالیے تھے اور قربانی کے گلے میں قلادہ پہنا دیا تھا، اس لیے میں جب تک قربانی نہ کروں احرام نہیں کھول سکتا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حج قران کی نیت سے احرام باندھے ہوئے تھے لیکن مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میں قربانی ساتھ نہ لایا ہوتا تو اس احرام کو عمرے سے بدل لیتا اور حج تمتع کرتا۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق حج قران اور حج تمتع کا ثبوت واضح ہے۔ (2) تلبید کے معنی یہ ہیں کہ محرم آدمی اپنے سر پر لوشن وغیرہ لگا لے تاکہ بال بکھرنے نہ پائیں اور ان میں جوئیں نہ پڑیں۔ اور اس کا ضرورت مند وہ شخص ہوتا ہے جس کی احرام کی مدت لمبی ہو اور وہ اعمال مناسک ادا کرنے کے لیے زیادہ عرصہ ٹھہرنا چاہتا ہو۔ (3) تقلید کے معنی یہ ہیں کہ قربانی کے جانور کے گلے میں کوئی جوتا وغیرہ لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ تقلید سے یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ احرام اس وقت تک رہے گا جب قربانی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ جائے۔ بہرحال جو شخص حج قران کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ قربانی کا جانور ہونا ضروری ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1525
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1566
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1566
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1566
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتع، حج قران، حج افراد۔ ٭ حج تمتع: اس سے مراد حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا، پھر عمرہ کر کے احرام کھول دینا اور غیر محرم ہی رہنا حتی کہ آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لیے احرام باندھنا۔ اس حج میں قربانی کرنا ضروری ہے۔ ٭ حج قِران: اس سے مراد میقات سے حج اور عمرے کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا اور سعی کرنے کے بعد احرام نہ کھولنا بلکہ حالت احرام ہی میں ایام حج کا انتظار کرنا اور اسی احرام سے حج مکمل کرنا۔ اس میں مسنون یہ ہے کہ قربانی ساتھ لے کر جائے۔ ٭ حج افراد: میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسک حج سرانجام دینا حج افراد کہلاتا ہے۔ اس میں قربانی واجب نہیں۔ میقات سے صرف عمرے کے ارادے سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرنا، عمرہ مفردہ کہلاتا ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہر قسم کی الگ نیت کرنا ضروری ہے، مبہم نیت کافی نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا تینوں اقسام میں سے کسی ایک قسم حج کی نیت کی جا سکتی ہے، ان کے جواز پر اجماع ہے، البتہ حج تمتع افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قِران کیا تھا لیکن آپ نے فرمایا تھا: "اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں قربانی لے کر نہ چلتا بلکہ اسے عمرہ بنا لیتا۔" (مسنداحمد:3/147) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل عمل ہی کی تمنا کر سکتے ہیں، نیز اس میں سہولت بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ احادیث میں حج کی تینوں اقسام کو بیان کیا ہے۔
حضرت حفصہ ؓ جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں، ان سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !کیا وجہ کے لوگوں نے تو عمرہ کرکے احرام کھول دیا ہے لیکن آپ نے عمرہ مکمل کرنے کے باوجود احرام نہیں کھولا ہے؟آپ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے بال جمالیے تھے اور قربانی کے گلے میں قلادہ پہنا دیا تھا، اس لیے میں جب تک قربانی نہ کروں احرام نہیں کھول سکتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حج قران کی نیت سے احرام باندھے ہوئے تھے لیکن مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میں قربانی ساتھ نہ لایا ہوتا تو اس احرام کو عمرے سے بدل لیتا اور حج تمتع کرتا۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق حج قران اور حج تمتع کا ثبوت واضح ہے۔ (2) تلبید کے معنی یہ ہیں کہ محرم آدمی اپنے سر پر لوشن وغیرہ لگا لے تاکہ بال بکھرنے نہ پائیں اور ان میں جوئیں نہ پڑیں۔ اور اس کا ضرورت مند وہ شخص ہوتا ہے جس کی احرام کی مدت لمبی ہو اور وہ اعمال مناسک ادا کرنے کے لیے زیادہ عرصہ ٹھہرنا چاہتا ہو۔ (3) تقلید کے معنی یہ ہیں کہ قربانی کے جانور کے گلے میں کوئی جوتا وغیرہ لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ تقلید سے یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ احرام اس وقت تک رہے گا جب قربانی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ جائے۔ بہرحال جو شخص حج قران کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ قربانی کا جانور ہونا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک ؓ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور امام بخاری ؓ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک ؓ نے خبردی، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر ؓ نے کہ حضور ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! کیا بات ہے اور لوگ تو عمرہ کرکے حلال ہو گئے لیکن آپ حلال نہیں ہوئے؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کی تلبید ( بالوں کو جمانے کے لیے ایک لیس دار چیز کا استعمال کرنا ) کی ہے اور اپنے ساتھ ہدی ( قربانی کا جانور ) لایا ہوں اس لیے میں قربانی کرنے سے پہلے احرام نہیں کھول سکتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Hafsah (RA) the wife of the Prophet (ﷺ) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Why have the people finished their Ihram after performing 'Umra but you have not finished your Ihram after performing 'Umra?" He replied, "I have matted my hair and garlanded my Hadi. So I will not finish my Ihram till I have slaughtered (my Hadi). " ________