Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: From where to leave Makkah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1576.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بلند گھاٹی کے مقام کداء سے جو بطحاء میں ہے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور نچلی گھاٹی کی طرف سے نکلے تھے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں: میرے استاد حضرت مسدد اپنے نام کی طرح ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے یحییٰ بن معین بن سعید کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر میں مسدد کے پاس ان کے گھر جاؤں اور وہاں ان سے حدیث بیان کروں تو وہ اس کے حقدار ہیں اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری کتابیں میرے پاس رہیں یا مسدد کے پاس ہوں۔
تشریح:
(1) بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے چھپ کر نکلے تھے تو ثنیہ علیا کا راستہ اختیار کیا تھا، اس لیے اسی طرف سے مکہ مکرمہ میں علانیہ داخل ہونے کا ارادہ فرمایا۔ ہمارے نزدیک عید کی طرح راستہ بدلنے میں نیک فال ہے کہ انسان کا حال اس سے اعلیٰ حال کی طرف بدل جائے اور دونوں راستے گواہی دیں۔ واللہ أعلم۔ (2) اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے حضرت مسدد بن مسرہد سے بیان کیا ہے۔ اس کی توثیق بیان کرتے ہوئے امام بخاری ؒ نے فرمایا: میرے شیخ حضرت مسدد اپنے نام کی طرح انتہائی مضبوط اور قابل اعتماد ہیں کیونکہ مسدد کے معنی محکم، یعنی مضبوط کے ہیں، پھر امام یحییٰ بن معین جو جرح و تعدیل کے امام ہیں، ان کے حوالے سے توثیق بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس عبارت کے متعلق اپنی شرح میں کچھ نہیں لکھا۔ شاید ان کے نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1535
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1576
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1576
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1576
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بلند گھاٹی کے مقام کداء سے جو بطحاء میں ہے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور نچلی گھاٹی کی طرف سے نکلے تھے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں: میرے استاد حضرت مسدد اپنے نام کی طرح ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے یحییٰ بن معین بن سعید کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر میں مسدد کے پاس ان کے گھر جاؤں اور وہاں ان سے حدیث بیان کروں تو وہ اس کے حقدار ہیں اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری کتابیں میرے پاس رہیں یا مسدد کے پاس ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے چھپ کر نکلے تھے تو ثنیہ علیا کا راستہ اختیار کیا تھا، اس لیے اسی طرف سے مکہ مکرمہ میں علانیہ داخل ہونے کا ارادہ فرمایا۔ ہمارے نزدیک عید کی طرح راستہ بدلنے میں نیک فال ہے کہ انسان کا حال اس سے اعلیٰ حال کی طرف بدل جائے اور دونوں راستے گواہی دیں۔ واللہ أعلم۔ (2) اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے حضرت مسدد بن مسرہد سے بیان کیا ہے۔ اس کی توثیق بیان کرتے ہوئے امام بخاری ؒ نے فرمایا: میرے شیخ حضرت مسدد اپنے نام کی طرح انتہائی مضبوط اور قابل اعتماد ہیں کیونکہ مسدد کے معنی محکم، یعنی مضبوط کے ہیں، پھر امام یحییٰ بن معین جو جرح و تعدیل کے امام ہیں، ان کے حوالے سے توثیق بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس عبارت کے متعلق اپنی شرح میں کچھ نہیں لکھا۔ شاید ان کے نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد بصری نے بیان کیا، انہو ںنے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ ثنیہ علیا یعنی مقام کداء کی طرف سے داخل ہوتے جو بطحاء میں ہے اور ثنیہ سفلیٰ کی طرف سے نکلتے تھے یعنی نیچے والی گھاٹی کی طرف سے۔
حدیث حاشیہ:
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مکہ شریف میں ایک راہ سے آنا اور دوسری راہ سے جانا مستحب ہے۔ نسخہ مطبوعہ مصر میں یہاں اتنی عبارت زیادہ ہے۔ قال أبو عبداللہ کا ن یقال هو مسددا کاسمه قال أبو عبداللہ سمعت یحییٰ بن معین یقول سمعت یحییٰ بن سعید القطان یقول لو أن مسدد أتیته في بیته فحدثته لإسحٰق ذالك وما أبالي کتبي کانت عندي أو عند مسدد۔ یعنی امام بخاری رضی اللہ عنہ نے کہا مسدد اسم بامسمی تھے یعنی مسدد کے معنی عربی زبان میں مضبوط اور درست کے ہیں تووہ حدیث کی روایت میں مضبوط تھے اور میں نے یحییٰ بن معین سے سنا، وہ کہتے ہیں میں نے یحییٰ قطان سے سنا، وہ کہتے تھے اگر میں مسدد کے گھر جاکر ان کو حدیث سنایا کرتا تو وہ اس کے لائق تھے اور میری کتابیں حدیث کی میرے پاس رہیں یا مسدد کے پاس مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ گو یا یحیٰ قطان نے مسدد کی بے حد تعریف کی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) entered Makkah from Kada' from the highest Thaniya which is at Al-Batha' and used to leave Makkah from the low Thaniya.