Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Tawaf of Al-Qarin)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1639.
حضرت رفع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے جبکہ ان کی سواری ان کے گھر میں بالکل تیار تھی انھوں نے عرض کیا: مجھے اندیشہ ہے کہ اس سال لوگوں میں لڑائی ہو جائے گی اور وہ آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیں گے، بنا بریں آپ کا یہیں ٹھہرنا مناسب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بھی(عمرے کے لیے) تشریف لے گئے تھے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے، لہٰذا اگر کوئی میرے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا تو میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا: ’’بے شک رسول اللہ ( ﷺ ) میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ پھر فرمایا کہ تم گواہ رہو، میں نے عمرے کے ساتھ حج کو بھی واجب کر لیا ہے۔ روای کہتے ہیں: پھر آپ مکہ مکرمہ آئےاور حج و عمرہ دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث دو طرق سے پیش کی ہے۔ دونوں میں وضاحت ہے کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کا ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے۔ ایک روایت میں مزید صراحت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھا اسے ان دونوں سے ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہو جائے گی حتی کہ وہ ان دونوں سے بیک وقت حلال ہو جائے۔‘‘(جامع الترمذي، الحج، حدیث:948) (2) حج قران کرنے والا اگر ایک طواف اور ایک سعی کرتا ہے تو صحیح احادیث کے اعتبار سے ایسا کرنا صحیح ہے اور جن روایات میں اس موقف کے خلاف بیان ہوا ہے وہ صحیح احادیث کے مقابلے میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتیں۔ اس سلسلے میں فتح الباری: (3/625) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1595
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1639
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1639
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1639
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ حج کی تین اقسام ہیں: (1) حج افراد (2) حج قران (3) حج تمتع۔ حض قران میں حج اور عمرہ دونوں کی نیت کی جاتی ہے۔ مکہ پہنچنے کے بعد عمرہ کر کے احرام نہیں کھولا جاتا بلکہ حج مکمل کر کے احرام اتارا جاتا ہے۔ حج قران کرنے والے پر قربانی واجب ہے۔ اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو دس دن کے روزے رکھے جائیں۔ حج قران کی نیت ہو تو قربانی ساتھ لے جانا مسنون ہے۔ اس میں تین طواف ہوتے ہیں: طواف قدوم، طواف افاضہ اور طواف وداع اور دو سعی، یعنی عمرہ اور حج کی الگ الگ سعی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی عمرے کا طواف اور سعی کیے بغیر سیدھا منیٰ چلا جائے اور ایک طواف اور ایک سعی کر کے احرام کھول دے تو بھی جائز ہے، البتہ احناف کا کہنا ہے کہ اس میں دو طواف اور دو سعی کرنی ضروری ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں اسی اختلاف کے متعلق اپنا رجحان بیان کیا ہے اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ حج قران کرنے والے کے لیے ایک طواف اور ایک سعی بھی کافی ہے۔
حضرت رفع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے جبکہ ان کی سواری ان کے گھر میں بالکل تیار تھی انھوں نے عرض کیا: مجھے اندیشہ ہے کہ اس سال لوگوں میں لڑائی ہو جائے گی اور وہ آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیں گے، بنا بریں آپ کا یہیں ٹھہرنا مناسب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بھی(عمرے کے لیے) تشریف لے گئے تھے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے، لہٰذا اگر کوئی میرے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا تو میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا: ’’بے شک رسول اللہ ( ﷺ ) میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ پھر فرمایا کہ تم گواہ رہو، میں نے عمرے کے ساتھ حج کو بھی واجب کر لیا ہے۔ روای کہتے ہیں: پھر آپ مکہ مکرمہ آئےاور حج و عمرہ دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث دو طرق سے پیش کی ہے۔ دونوں میں وضاحت ہے کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کا ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے۔ ایک روایت میں مزید صراحت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھا اسے ان دونوں سے ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہو جائے گی حتی کہ وہ ان دونوں سے بیک وقت حلال ہو جائے۔‘‘(جامع الترمذي، الحج، حدیث:948) (2) حج قران کرنے والا اگر ایک طواف اور ایک سعی کرتا ہے تو صحیح احادیث کے اعتبار سے ایسا کرنا صحیح ہے اور جن روایات میں اس موقف کے خلاف بیان ہوا ہے وہ صحیح احادیث کے مقابلے میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتیں۔ اس سلسلے میں فتح الباری: (3/625) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر ؓ کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ ان کے یہاں گئے۔ حج کے لیے سواری گھر میں کھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ اس سال مسلمانوں میں آپس میں لڑائی ہوجائے گی اور آپ کو وہ بیت اللہ سے روک دیں گے۔ اس لیے اگر آپ نہ جاتے تو بہتر ہوتا۔ ابن عمر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے گئے تھے ( عمرہ کرنے صلح حدیبیہ کے موقع پر ) اور کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔ اس لیے اگر مجھے بھی روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا اور تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج ( اپنے اوپر ) واجب کرلیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ مکہ آئے اور دونوں عمرہ اور حج کے لیے ایک ہی طواف کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi': 'Abdullah bin 'Abdullah bin 'Umar and his riding animal entered the house of Ibn 'Umar (RA). He (the son of Ibn 'Umar (RA)) said, "I fear that this year a battle might take place between the people and you might be prevented from going to the Ka’bah. I suggest that you should stay here." Ibn Umar (RA) said, "Once Allah's Apostle (ﷺ) set out for the pilgrimage, and the pagans of Quraish intervened between him and the Ka’bah. So, if the people intervened between me and the Ka’bah, I would do the same as Allah's Apostle (ﷺ) had done . . . "Verily, in Allah's Apostle (ﷺ) you have a good example." Then he added, "I make you a witness that I have intended to perform Hajj along with 'Umra." After arriving at Makkah, Ibn 'Umar (RA) performed one Tawaf only (between Safa and Marwa). ________