Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: One’s speed while one is departing from 'Arafat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1666.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میری موجودگی میں حضرت اسامہ بن زید ؓ سے دریافت کیا گیا کہ حجۃ الوداع میں عرفات سے واپسی کے وقت رسول اللہ ﷺ کی رفتار کیسی تھی؟انھوں نے فرمایا کہ عام رفتار سے چلتے تھے اور جب میدان آجاتا تو تیز ہوجاتے۔ (راوی حدیث) حضرت ہشام نے کہا: نص اس تیز رفتاری کو کہتے ہیں جو عام رفتار سے زیادہ ہو۔ فَجْوَةٍ وسیع میدان کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع فجوات اور فجاءہے جیسا کہ ركوة کی جمع (ركوات اور) ركاء ہے۔ مَنَاصٍ کے معنی ہیں۔ بھاگنے کا وقت نہیں رہا۔
تشریح:
(1) مزدلفہ میدان عرفات سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ عرفات سے غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ واپسی ہوتی ہے۔ وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھی جاتی ہیں، اس لیے عرفات سے واپسی مزدلفہ لوٹتے وقت جلدی کی جاتی ہے اور یہ جلدی قلت وقت کی بنا پر ہوتی ہے، البتہ وادی محسر میں آ کر رفتار مزید تیز کر دی جاتی ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کو عرفات سے واپسی کے وقت اپنے پیچھے بٹھایا تھا۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! آرام اور سکون سے چلو، بھاگنا، دوڑنا کوئی نیکی نہیں۔ جب بھیڑ ختم ہو جاتی اور میدانی علاقہ آ جاتا تو سواری کو کچھ تیز کر دیا جاتا۔ (3) فجوة کی لغوی بحث امام بخاری ؒ کی طرف سے ہے۔ بعض لوگوں نے نص اور مناص کا مادہ ایک قرار دیا ہے، حالانکہ نص مضاعف ثلاثی ہے اور مناص اجوف ہے، اس کے معنی فرار کے ہیں۔ امام بخاری نے دفع توہم کے لیے لغوی تشریح کر دی ہے کہ انہیں لفظی تشاکل کی وجہ سے ایک مادہ شمار نہ کیا جائے۔ (فتح الباري:655/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1620
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1666
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1666
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1666
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
یعنی دھیمی چال سے یا جلدی، چونکہ مزدلفہ میں آکر مغرب اور عشاءکی نمازیں ملا کر پڑھتے ہیں عرفات سے لوٹتے وقت جلد چلنا مسنون ہے جیسے حدیث آگے موجود ہے۔
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میری موجودگی میں حضرت اسامہ بن زید ؓ سے دریافت کیا گیا کہ حجۃ الوداع میں عرفات سے واپسی کے وقت رسول اللہ ﷺ کی رفتار کیسی تھی؟انھوں نے فرمایا کہ عام رفتار سے چلتے تھے اور جب میدان آجاتا تو تیز ہوجاتے۔ (راوی حدیث) حضرت ہشام نے کہا: نص اس تیز رفتاری کو کہتے ہیں جو عام رفتار سے زیادہ ہو۔ فَجْوَةٍ وسیع میدان کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع فجوات اور فجاءہے جیسا کہ ركوة کی جمع (ركوات اور) ركاء ہے۔ مَنَاصٍ کے معنی ہیں۔ بھاگنے کا وقت نہیں رہا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مزدلفہ میدان عرفات سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ عرفات سے غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ واپسی ہوتی ہے۔ وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھی جاتی ہیں، اس لیے عرفات سے واپسی مزدلفہ لوٹتے وقت جلدی کی جاتی ہے اور یہ جلدی قلت وقت کی بنا پر ہوتی ہے، البتہ وادی محسر میں آ کر رفتار مزید تیز کر دی جاتی ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کو عرفات سے واپسی کے وقت اپنے پیچھے بٹھایا تھا۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! آرام اور سکون سے چلو، بھاگنا، دوڑنا کوئی نیکی نہیں۔ جب بھیڑ ختم ہو جاتی اور میدانی علاقہ آ جاتا تو سواری کو کچھ تیز کر دیا جاتا۔ (3) فجوة کی لغوی بحث امام بخاری ؒ کی طرف سے ہے۔ بعض لوگوں نے نص اور مناص کا مادہ ایک قرار دیا ہے، حالانکہ نص مضاعف ثلاثی ہے اور مناص اجوف ہے، اس کے معنی فرار کے ہیں۔ امام بخاری نے دفع توہم کے لیے لغوی تشریح کر دی ہے کہ انہیں لفظی تشاکل کی وجہ سے ایک مادہ شمار نہ کیا جائے۔ (فتح الباري:655/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ اسامہ بن زید ؓ سے کسی نے پوچھا (میں بھی وہیں موجود تھا ) کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے رسول اللہ ﷺ کے واپس ہونے کی چال کیا تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ پاؤں اٹھا کر چلتے تھے ذرا تیز، لیکن جب جگہ پاتے (ہجوم نہ ہوتا ) تو تیز چلتے تھے، ہشام نے کہا کہ ’’عنق‘‘ تیز چلنا اور ’’نص ‘‘ عنق سے زیادہ تیز چلنے کو کہتے ہیں۔ ’’فجوہ ‘‘ کے معنی کشادہ جگہ، اس کی جمع فجوات اور فجاءہے جیسے زکوۃ مفرد زکاءاس کی جمع اور سورۃ ص میں مناص کا جو لفظ آیا ہے اس کے معنی بھاگنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
تو اس سے نص مشتق نہیں جو حدیث میں مذکور ہے، یہ تو ایک ادنی بھی جس کی عربیت سے ذرا سی استعداد ہو سمجھ سکتا ہے کہ مناص کو نص سے کیا علاقہ، نص مضاعف ہے اور مناص معتل ہے۔ اب یہ خیال کرنا کہ امام بخاری ؒ نے مناص کو نص سے مشتق سمجھا ہے اس لیے یہاں اس کے معنی بیان کردیئے جسے عینی نے نقل کیا ہے یہ بالکل کم فہمی ہے، اصل یہ ہے کہ اکثر نسخوں میں یہ عبارت ہی نہیں ہے اور جن نسخوں میں موجود ہے ان کی توجیہ یوں ہو سکتی ہے کہ بعض لوگوں کو کم استعدادی سے یہ وہم ہوا ہوگا کہ مناص اور نص کا مادہ ایک ہی ہے امام بخاری نے مناص کی تفسیر کرکے اس وہم کا رد کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): Usama was asked in my presence, "How was the speed of (the camel of) Allah's Apostle (ﷺ) while departing from 'Arafat during the Hajjatul Wada?" Usama replied, "The Prophet (ﷺ) proceeded on with a modest pace, and when there was enough space he would (make his camel) go very fast." ________