Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Slaughtering before having one’s head shaved)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1723.
حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کسی نے کہا: میں نے غروب آفتاب کے بعد کنکریاں ماری ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس نے عرض کیا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوادیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث کو چھ طرق سے بیان کیا، کچھ متن کے ساتھ اور کچھ متن کے بغیر۔ چھ طرق اس طرح ہیں: (1) عبدالعزيز بن رفيع، عن عطاء، عن ابن عباس۔ (2) قيس بن سعد، عن عطاء، عن جابر۔ (3) ابن خثيم، عن عطاء، عن ابن عباس۔ (4) عباد بن منصور، عن عطاء، عن جابر۔ (5) ابن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس۔ (6) عكرمة، عن ابن عباس۔ تیسرے طریق سے یہ روایت معلق بیان ہوئی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ چوتھے طریق کی معلق روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ پانچویں طریق کی معلق روایت کو سنن نسائی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (عمدةالقاري:335/7) مذکورہ تمام روایات حجۃ الوداع سے متعلق ہیں۔ اس سال لوگوں کی کثیر تعداد حج میں شامل ہوئی۔ بعض نے ناواقفیت کی وجہ سے دسویں ذوالحجہ کے کام آگے پیچھے کر لیے کیونکہ اس دن پہلے رمی کی جاتی ہے، پھر قربانی ذبح کرنی ہوتی ہے، اس کے بعد حجامت بنوانا، پھر آخر میں طواف زیارت کرنا ہوتا ہے، نیز اس دن رمی بھی غروب آفتاب سے پہلے کرنی ہوتی ہے لیکن ناواقفیت کی وجہ سے اگر ان افعال کو آگے پیچھے کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دسویں ذوالحجہ کو منیٰ میں لوگوں کے لیے تشریف لائے، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے لاعلمی کی بنا پر قربانی سے قبل اپنا سر منڈوا دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اب ذبح کر دے کوئی حرج نہیں۔‘‘ دوسرے نے عرض کی: اللہ کے رسول! ناواقفیت کی وجہ سے میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر دی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اب رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس دن آپ سے اس تقدیم و تاخیر کے متعلق جو بھی سوال ہوا تو آپ نے یہی جواب دیا کہ جاؤ اب کر لو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3156(1306)) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے قربانی کرنے، سر منڈوانے، کنکریاں مارنے اور ان میں تقدیم و تاخیر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1734) (2) امام بخاری ان احادیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے کرنی چاہیے کیونکہ سائل کے سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا علم تھا کہ قربانی حلق سے پہلے ہے لیکن اس نے اس کے برعکس کر لیا تھا۔ امام بخاری ؒ کے استدلال کی یہی بنیاد ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سر منڈوانے سے پہلے قربانی کی اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث:1811) اگرچہ مذکورہ ترتیب عمرۂ حدیبیہ کے موقع کی ہے، تاہم حج میں بھی مسنون ترتیب یہی ہے جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اسے ثابت کیا ہے۔ (حجةالنبي صلی اللہ علیه وسلم للألباني،ص:85) الغرض یہ ترتیب مسنون ہے، فرض نہیں۔ اگر کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1675
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1723
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1723
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1723
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کسی نے کہا: میں نے غروب آفتاب کے بعد کنکریاں ماری ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس نے عرض کیا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوادیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث کو چھ طرق سے بیان کیا، کچھ متن کے ساتھ اور کچھ متن کے بغیر۔ چھ طرق اس طرح ہیں: (1) عبدالعزيز بن رفيع، عن عطاء، عن ابن عباس۔ (2) قيس بن سعد، عن عطاء، عن جابر۔ (3) ابن خثيم، عن عطاء، عن ابن عباس۔ (4) عباد بن منصور، عن عطاء، عن جابر۔ (5) ابن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس۔ (6) عكرمة، عن ابن عباس۔ تیسرے طریق سے یہ روایت معلق بیان ہوئی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ چوتھے طریق کی معلق روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ پانچویں طریق کی معلق روایت کو سنن نسائی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (عمدةالقاري:335/7) مذکورہ تمام روایات حجۃ الوداع سے متعلق ہیں۔ اس سال لوگوں کی کثیر تعداد حج میں شامل ہوئی۔ بعض نے ناواقفیت کی وجہ سے دسویں ذوالحجہ کے کام آگے پیچھے کر لیے کیونکہ اس دن پہلے رمی کی جاتی ہے، پھر قربانی ذبح کرنی ہوتی ہے، اس کے بعد حجامت بنوانا، پھر آخر میں طواف زیارت کرنا ہوتا ہے، نیز اس دن رمی بھی غروب آفتاب سے پہلے کرنی ہوتی ہے لیکن ناواقفیت کی وجہ سے اگر ان افعال کو آگے پیچھے کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دسویں ذوالحجہ کو منیٰ میں لوگوں کے لیے تشریف لائے، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے لاعلمی کی بنا پر قربانی سے قبل اپنا سر منڈوا دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اب ذبح کر دے کوئی حرج نہیں۔‘‘ دوسرے نے عرض کی: اللہ کے رسول! ناواقفیت کی وجہ سے میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر دی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اب رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس دن آپ سے اس تقدیم و تاخیر کے متعلق جو بھی سوال ہوا تو آپ نے یہی جواب دیا کہ جاؤ اب کر لو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3156(1306)) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے قربانی کرنے، سر منڈوانے، کنکریاں مارنے اور ان میں تقدیم و تاخیر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1734) (2) امام بخاری ان احادیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے کرنی چاہیے کیونکہ سائل کے سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا علم تھا کہ قربانی حلق سے پہلے ہے لیکن اس نے اس کے برعکس کر لیا تھا۔ امام بخاری ؒ کے استدلال کی یہی بنیاد ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سر منڈوانے سے پہلے قربانی کی اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث:1811) اگرچہ مذکورہ ترتیب عمرۂ حدیبیہ کے موقع کی ہے، تاہم حج میں بھی مسنون ترتیب یہی ہے جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اسے ثابت کیا ہے۔ (حجةالنبي صلی اللہ علیه وسلم للألباني،ص:85) الغرض یہ ترتیب مسنون ہے، فرض نہیں۔ اگر کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے ایک آدمی نے مسئلہ پوچھا کہ شام ہونے کے بعد میں نے رمی کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ سائل نے کہا کہ قربانی کرنے سے پہلے میں نے سر منڈا لیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا رمی کرنے کا افضل وقت زوال تک ہے اور غروب آفتاب سے قبل تک بھی عمدہ ہے اور اس کے بعد بھی جائز ہے اور حلق اور قصر اور طواف الزیارۃ کا وقت معین نہیں، لیکن یو م النحر سے ان کی تاخیر کرنا مکروہ ہے اور ایام تشرقی سے تاخیر کرنا سخت مکروہ ہے۔ غرض یوم النحر کے دن حاجی کو چار کام کرنے ہوتے ہیں رمی اور قربانی اور حلق یا قصر، ان چاروں میں ترتیب سنت ہے، لیکن فرض نہیں، اگر کوئی کام دوسرے سے آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ ان حدیثوں سے نکلتا ہے۔ امام مالک اور شافعی اور اسحاق اور ہمارے امام احمد بن حنبل سب کا یہی قول ہے اور امام ابوحنيفہ کہتے ہیں کہ اس پر دم لازم آئے گا اور اگر قارن ہے تو دو دم لازم آئیں گے۔ ( وحیدی ) جب شارع ؑ نے خود ایسی حالتوں میں لا حرج فرما دیا تو ایسے مواقع پر ایک یا دو دم لازم کرنا صحیح نہیں ہے آج کل معلمین حاجیوں کو ان بہانوں سے جس قدر پریشان کرتے ہیں اور ان سے روپیہ اینٹھتے ہیں یہ سب حرکتیں سخت ناپسندیدہ ہیں۔ فی الواقع کوئی شرعی کوتاہی قابل دم ہو تو وہ تو اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر خواہ مخواہ ایسی چیزیں از خود پیدا کرنا بہت ہی معیوب ہے۔ اس حدیث سے مفتیان اسلام کو بھی سبق ملتا ہے، جہاں تک ممکن ہو فتوی دریافت کرنے والوں کے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں آسانی و نرمی کا پہلو اختیار کریں مگر حدود شرعیہ میں کوئی بھی نرمی نہ ہونی چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) was asked by a man who said, "I have done the Rami in the evening." The Prophet (ﷺ) replied, "There is no harm in it." Another man asked, "I had my head shaved before the slaughtering." The Prophet (ﷺ) replied, "There is no harm in it."