Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: (What kind of) animals can be killed by a Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1829.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ جانورضرررساں ہیں۔ انھیں حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے۔ کوا، چیل، چوہا، بچھو، اورباؤلاکتا جو کاٹنے والاہو۔‘‘
تشریح:
(1) یہ پانچوں جانور انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔ یہ اذیت رسانی اور فساد انگیزی میں دوسرے جانوروں سے الگ رستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں فاسق کہا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حل و حرم میں مار دینے کا حکم دے کر مالی، جسمانی، اقتصادی اور غذائی مسائل کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے۔ (2) کوا اور چیل ڈاکا زنی میں مشہور ہیں۔ کوا اونٹ کی پشت پر چونچیں مارتا ہے۔ اگر اونٹ کمزور ہو تو اس کی آنکھ نکال دیتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کا کھانا چھین لیتا ہے۔ اسی طرح چیل بھی گوشت چھین لیتی ہے۔ بچھو ڈنگ مارنے میں مشہور ہے۔ اس کے ڈسنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ چوہا انسانی صحت کے لیے ضرر رساں، غذائی ذخیروں کا دشمن، چراغ سے بتی نکال کر سارے گھر کو جلا کر بھسم کر دیتا ہے اور باؤلا کتا بھی انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ وہ لوگوں کو زخمی کرتا ہے۔ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ انہیں احرام کی حالت میں قتل کرنا جائز ہے اور حرم کے اندر بھی انہیں مارا جا سکتا ہے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ واجب القتل مجرم اگر حرم میں پناہ گزیں ہو جائے تو اسے کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:54/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1777
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1829
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1829
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1829
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ جانورضرررساں ہیں۔ انھیں حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے۔ کوا، چیل، چوہا، بچھو، اورباؤلاکتا جو کاٹنے والاہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ پانچوں جانور انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔ یہ اذیت رسانی اور فساد انگیزی میں دوسرے جانوروں سے الگ رستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں فاسق کہا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حل و حرم میں مار دینے کا حکم دے کر مالی، جسمانی، اقتصادی اور غذائی مسائل کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے۔ (2) کوا اور چیل ڈاکا زنی میں مشہور ہیں۔ کوا اونٹ کی پشت پر چونچیں مارتا ہے۔ اگر اونٹ کمزور ہو تو اس کی آنکھ نکال دیتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کا کھانا چھین لیتا ہے۔ اسی طرح چیل بھی گوشت چھین لیتی ہے۔ بچھو ڈنگ مارنے میں مشہور ہے۔ اس کے ڈسنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ چوہا انسانی صحت کے لیے ضرر رساں، غذائی ذخیروں کا دشمن، چراغ سے بتی نکال کر سارے گھر کو جلا کر بھسم کر دیتا ہے اور باؤلا کتا بھی انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ وہ لوگوں کو زخمی کرتا ہے۔ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ انہیں احرام کی حالت میں قتل کرنا جائز ہے اور حرم کے اندر بھی انہیں مارا جا سکتا ہے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ واجب القتل مجرم اگر حرم میں پناہ گزیں ہو جائے تو اسے کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:54/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں جو سب کے سب موذی ہیں اور انہیں حرم میں بھی مارا جاسکتا ہے کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔
حدیث حاشیہ:
یہ پانچوں جانور جس قدر بھی موذی ہیں ظاہر ہے ان کی ہلاکت کے حکم سے شارع ؑ نے بنی نوع انسان کے مالی، جسمانی، اقتصادی، غذائی بہت سے مسائل کی طرف رہ نمائی فرمائی ہے کوا اور چیل ڈاکے زنی میں مشہور ہیں اور بچھو اپنی نیش زنی ( ڈنک مارنے میں ) ، چوہا انسانی صحت کے لیے مضر، پھر غذاؤں کے ذخیروں کا دشمن، اور کاٹنے والا کتا صحت کے لیے انتہائی خطرناک۔ یہی وجہ جو ان کا قتل ہر جگہ جائز ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Five kinds of animals are harmful and could be killed in the Haram (Sanctuary). These are: the crow, the kite, the scorpion, the mouse and the rabid dog."