Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Sexual intercourse with wife in Ramadan and the expiation of that.)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور کے پاس کو ئی خیرات کے لیے بھی نہ ہو پھر اس کو کہیں سے خیرات مل جائے تو وہی کفارہ میں دے دے
1936.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں برباد ہوگیاہوں۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے عرض کیا: میں نے بحالت روزہ اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تجھے کوئی غلام میسر ہے کہ تو اسے آزاد کردے؟‘‘ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتا ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا : نہیں۔ حضرت ابوہریرۃ ؓ کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس ٹھہرا رہا ہم سب بھی اسی طرح بیٹھے تھے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں کا بھرا ہوا عرق لایا گیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔۔۔ آپ نے فرمایا: ’’سائل کہاں ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ لو اور اسے خیرات کردو۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !خیرات تو اس پر کروں جومجھ سے زیادہ محتاج ہو، اللہ کی قسم!مدینہ کے دو طرفہ پتھریلے کناروں میں کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ اتنا ہنسے کہ آپ ﷺ کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا اسے اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو۔‘‘
تشریح:
(1) جمہور محدثین کا موقف ہے کہ مفلسی اور ناداری کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ کھجوریں صدقے کے طور پر اسے عنایت کی تھیں تاکہ وہ اپنے اہل و عیال کو کھلائے۔ آپ نے اسے کفارے سے سبکدوش نہیں کیا۔ (2) بعض حضرات کا موقف ہے کہ تنگ دستی کی بنا پر کفارہ ساقط ہو جائے گا جیسا کہ صدقۂ فطر، غربت کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے لیکن صدقۂ فطر پر اسے قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صدقۂ فطر کا ایک وقت ہے، اس کے بعد وہ خود بخود ساقط ہو جاتا ہے، یعنی اسے نماز عید سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ اس کفارے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اسے خود کھاؤ اور اپنے اہل و عیال کو کھلاؤ، اللہ تعالیٰ نے تیری طرف سے کفارہ دے دیا ہے۔‘‘ لیکن یہ حدیث قابل حجت نہیں، اس لیے محتاج اور نادار سے کفارہ ساقط نہیں ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس صدقے کو اسے اہل و عیال پر خرچ کرنے کے لیے دیا، باقی رہا کفارہ وہ حالات کشادہ ہونے پر ادا کر دیا جائے گا۔ (فتح الباري:219/4) (3) بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جماع سے مرد اور عورت پر صرف ایک ہی کفارہ کافی ہو گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی، حالانکہ بیان کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اگر عورت نے خوشی سے اس کام میں شرکت کی ہو تو اس پر الگ کفارہ ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس لیے عورت کا ذکر نہیں کیا کہ شاید عورت مجبور کر دی گئی ہو یا روزہ بھول گئی ہو یا کسی عذر یا مرض یا سفر یا صغر سنی یا جنون یا حیض کی وجہ سے معذور ہو یا دن کے وقت حیض سے پاک ہوئی ہو۔ یہ سب احتمالات موجود ہیں۔ ان کی موجودگی میں عورت پر کفارہ واجب نہ ہونے کا استدلال محل نظر ٹھہرتا ہے۔ (فتح الباري:217/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1879
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1936
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1936
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1936
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
اور کے پاس کو ئی خیرات کے لیے بھی نہ ہو پھر اس کو کہیں سے خیرات مل جائے تو وہی کفارہ میں دے دے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں برباد ہوگیاہوں۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے عرض کیا: میں نے بحالت روزہ اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تجھے کوئی غلام میسر ہے کہ تو اسے آزاد کردے؟‘‘ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتا ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا : نہیں۔ حضرت ابوہریرۃ ؓ کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس ٹھہرا رہا ہم سب بھی اسی طرح بیٹھے تھے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں کا بھرا ہوا عرق لایا گیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔۔۔ آپ نے فرمایا: ’’سائل کہاں ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ لو اور اسے خیرات کردو۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !خیرات تو اس پر کروں جومجھ سے زیادہ محتاج ہو، اللہ کی قسم!مدینہ کے دو طرفہ پتھریلے کناروں میں کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ اتنا ہنسے کہ آپ ﷺ کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا اسے اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) جمہور محدثین کا موقف ہے کہ مفلسی اور ناداری کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ کھجوریں صدقے کے طور پر اسے عنایت کی تھیں تاکہ وہ اپنے اہل و عیال کو کھلائے۔ آپ نے اسے کفارے سے سبکدوش نہیں کیا۔ (2) بعض حضرات کا موقف ہے کہ تنگ دستی کی بنا پر کفارہ ساقط ہو جائے گا جیسا کہ صدقۂ فطر، غربت کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے لیکن صدقۂ فطر پر اسے قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صدقۂ فطر کا ایک وقت ہے، اس کے بعد وہ خود بخود ساقط ہو جاتا ہے، یعنی اسے نماز عید سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ اس کفارے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اسے خود کھاؤ اور اپنے اہل و عیال کو کھلاؤ، اللہ تعالیٰ نے تیری طرف سے کفارہ دے دیا ہے۔‘‘ لیکن یہ حدیث قابل حجت نہیں، اس لیے محتاج اور نادار سے کفارہ ساقط نہیں ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس صدقے کو اسے اہل و عیال پر خرچ کرنے کے لیے دیا، باقی رہا کفارہ وہ حالات کشادہ ہونے پر ادا کر دیا جائے گا۔ (فتح الباري:219/4) (3) بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جماع سے مرد اور عورت پر صرف ایک ہی کفارہ کافی ہو گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی، حالانکہ بیان کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اگر عورت نے خوشی سے اس کام میں شرکت کی ہو تو اس پر الگ کفارہ ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس لیے عورت کا ذکر نہیں کیا کہ شاید عورت مجبور کر دی گئی ہو یا روزہ بھول گئی ہو یا کسی عذر یا مرض یا سفر یا صغر سنی یا جنون یا حیض کی وجہ سے معذور ہو یا دن کے وقت حیض سے پاک ہوئی ہو۔ یہ سب احتمالات موجود ہیں۔ ان کی موجودگی میں عورت پر کفارہ واجب نہ ہونے کا استدلال محل نظر ٹھہرتا ہے۔ (فتح الباري:217/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ” عرق زنبیل کو کہتے ہیں “ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے ( محتاجوں کو ) کھلادے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔
حدیث حاشیہ:
صورت مذکورہ میں بطور کفارہ پہلی صورت غلام آزاد کرنے کی رکھی گئی، دوسری صورت پے در پے دو مہینہ روزہ رکھنے کی، تیسری صورت ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی، اب بھی ایسی حالت میں یہ تینوں صورتیں قائم ہیں چونکہ شخص مذکور نے ہر صورت کی ادائیگی کے لیے اپنی مجبوری ظاہر کی آخر میں ایک صورت آنحضرت ﷺ نے اس کے لیے نکالی تو اس پر بھی اس نے خود اپنی مسکینی کا اظہار کیا۔ آنحضرت ﷺ کو اس کی حالت زار پر رحم آیا اور اس رحم و کرم کے تحت آپ ﷺ نے وہ فرمایا جو یہاں مذکو رہے۔ حضرت امام بخاری ؒ کے نزدیک اب بھی کوئی ایسی صورت سامنے آجائے تو یہ حکم باقی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے اس شخص کے ساتھ خاص قرار دے کر اب اس کو منسوخ قرار دیا ہے مگر حضرت امام بخاری ؒ کا رجحان اس باب سے ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): While we were sitting with the Prophet (ﷺ) a man came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have been ruined." Allah's Apostle (ﷺ) asked what was the matter with him. He replied "I had sexual intercourse with my wife while I was fasting." Allah's Apostle (ﷺ) asked him, "Can you afford to manumit a slave?" He replied in the negative. Allah's Apostle (ﷺ) asked him, "Can you fast for two successive months?" He replied in the negative. The Prophet (ﷺ) asked him, "Can you afford to feed sixty poor persons?" He replied in the negative. The Prophet (ﷺ) kept silent and while we were in that state, a big basket full of dates was brought to the Prophet (ﷺ) . He asked, "Where is the questioner?" He replied, "I (am here)." The Prophet (ﷺ) said (to him), "Take this (basket of dates) and give it in charity." The man said, "Should I give it to a person poorer than I? By Allah; there is no family between its (i.e. Medina's) two mountains who are poorer than I." The Prophet (ﷺ) smiled till his pre-molar teeth became visible and then said, 'Feed your family with it."