Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Can somebody else observe Saum instead of the dead?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حسن بصری نے کہا کہ اگر اس کی طرف سے ( رمضان کے تیس روزوں کے بدلے ) تیس آدمی ایک دن روزہ رکھ لیں تو جائز ہے۔
1953.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھ سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، کیونکہ اللہ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔‘‘ ابن عباس ؓ ہی کے ایک طریق میں ہے: ایک عورت نے نبی کریم ﷺ سے کہا: میری بہن فوت ہوگئی ہے ایک دوسرے طریق میں ہے کہ ایک عورت نے نبی کریم ﷺ سے کہا: میری ماں فوت ہوگئی ہے۔ ایک طریق کے الفاظ میں ہے کہ میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمے نذر کے روزے تھے ایک طریق میں ہے میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمے پندرہ دنوں کے روزے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی اس حدیث کے مختلف طرق بیان کیے ہیں۔ کسی میں ہے کہ پوچھنے والا مرد تھا اور کسی روایت کے مطابق دریافت کرنے والی عورت تھی۔ کوئی ایک ماہ کے روزوں کا ذکر کرتا ہے اور کسی میں پندرہ روزوں کا بیان ہے، کسی میں نذر کے روزوں کی وضاحت ہے، لیکن ان اختلافات سے حدیث میں کوئی نقص نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ مختلف واقعات ہوں اور سوال کرنے والے متعدد ہوں۔ بہرحال اتنی بات ضرور ہے کہ میت کی طرف سے روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے اور حج بھی کیا جا سکتا ہے۔ (2) اہل علم نے ان مختلف روایات کو اس طرح جمع کیا ہے: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی۔ مرنے والی ان دونوں کی بہن تھی، جس پر "ام" کا لفظ مجازاً کہا گیا ہے کیونکہ وہ ان دونوں سے عمر میں بڑی تھی، اس کے ذمے پندرہ روزے نذر کے تھے اور پندرہ قضا کے تھے، اس طرح مجموعہ ایک ماہ ہو جائے گا۔ واللہ أعلم
ملحوظہ: مذکورہ روایات حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جبکہ کتب حدیث میں ان دونوں حضرات کا فتویٰ ان کی اپنی بیان کردہ حدیث کے خلاف ہے۔ احناف کے ہاں یہ قاعدہ مشہور ہے کہ جب کسی راوی کا فتویٰ اس کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہو تو وہ روایت اس کے نزدیک منسوخ ہوتی ہے، لہذا یہ روایات قابل عمل نہیں ہیں، چنانچہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میت کی طرف سے روزے نہ رکھو بلکہ اس کی طرف سے کھانا کھلاؤ۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:254/4) اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی طرف سے روزے نہ رکھے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:718) پہلی بات تو یہ ہے کہ ان آثار کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اصل اعتبار تو ان کی بیان کردہ روایت کا ہے اور اس کی درایت، اس کی بیان کردہ روایت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ (فتح الباري:247/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1896
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1953
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1953
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1953
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس اثر کو امام دارقطنی نے موصولاً بیان کیا ہے، الفاظ یہ ہیں: ایک آدمی فوت ہوا جس کے ذمے تیس روزے تھے تو اس کے لیے تیس آدمی جمع کیے جائیں، وہ ایک دن کا روزہ رکھ لیں تو میت کی طرف سے کافی ہیں۔ لیکن صورت مذکورہ میں تسلسل نہیں ہو گا اور ایسا کرنا ضروری بھی نہیں۔ (فتح الباری:4/246)
اور حسن بصری نے کہا کہ اگر اس کی طرف سے ( رمضان کے تیس روزوں کے بدلے ) تیس آدمی ایک دن روزہ رکھ لیں تو جائز ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھ سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، کیونکہ اللہ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔‘‘ ابن عباس ؓ ہی کے ایک طریق میں ہے: ایک عورت نے نبی کریم ﷺ سے کہا: میری بہن فوت ہوگئی ہے ایک دوسرے طریق میں ہے کہ ایک عورت نے نبی کریم ﷺ سے کہا: میری ماں فوت ہوگئی ہے۔ ایک طریق کے الفاظ میں ہے کہ میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمے نذر کے روزے تھے ایک طریق میں ہے میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمے پندرہ دنوں کے روزے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی اس حدیث کے مختلف طرق بیان کیے ہیں۔ کسی میں ہے کہ پوچھنے والا مرد تھا اور کسی روایت کے مطابق دریافت کرنے والی عورت تھی۔ کوئی ایک ماہ کے روزوں کا ذکر کرتا ہے اور کسی میں پندرہ روزوں کا بیان ہے، کسی میں نذر کے روزوں کی وضاحت ہے، لیکن ان اختلافات سے حدیث میں کوئی نقص نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ مختلف واقعات ہوں اور سوال کرنے والے متعدد ہوں۔ بہرحال اتنی بات ضرور ہے کہ میت کی طرف سے روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے اور حج بھی کیا جا سکتا ہے۔ (2) اہل علم نے ان مختلف روایات کو اس طرح جمع کیا ہے: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی۔ مرنے والی ان دونوں کی بہن تھی، جس پر "ام" کا لفظ مجازاً کہا گیا ہے کیونکہ وہ ان دونوں سے عمر میں بڑی تھی، اس کے ذمے پندرہ روزے نذر کے تھے اور پندرہ قضا کے تھے، اس طرح مجموعہ ایک ماہ ہو جائے گا۔ واللہ أعلم
ملحوظہ: مذکورہ روایات حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جبکہ کتب حدیث میں ان دونوں حضرات کا فتویٰ ان کی اپنی بیان کردہ حدیث کے خلاف ہے۔ احناف کے ہاں یہ قاعدہ مشہور ہے کہ جب کسی راوی کا فتویٰ اس کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہو تو وہ روایت اس کے نزدیک منسوخ ہوتی ہے، لہذا یہ روایات قابل عمل نہیں ہیں، چنانچہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میت کی طرف سے روزے نہ رکھو بلکہ اس کی طرف سے کھانا کھلاؤ۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:254/4) اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی طرف سے روزے نہ رکھے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:718) پہلی بات تو یہ ہے کہ ان آثار کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اصل اعتبار تو ان کی بیان کردہ روایت کا ہے اور اس کی درایت، اس کی بیان کردہ روایت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ (فتح الباري:247/4)
ترجمۃ الباب:
حسن بصری نے کہا کہ اگر میت کی طرف سے تیس آدمی ایک ہی دن روزہ رکھ لیں تو جائز ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم بطین نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا او رعرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! میری ماں کا انتقال ہو گیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے قضا رکھ سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ضرور، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے۔ سلیمان اعمش نے بیان کیا کہ حکم اور سلمہ نے کہا جب مسلم بطین نے یہ حدیث بیان کیا تو ہم سب وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے مجاہد سے بھی سنا تھا کہ وہ یہ حدیث ابن عباس ؓ سے بیان کرتے تھے۔ ابوخالد سے روایت ہے کہ اعمش نے بیان کیا ان سے حکم، مسلم بطین اور سلمہ بن کہیل نے، ان سے سعید بن جبیر، عطاءاو رمجاہد نے ابن عباس ؓ سے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میری ” بہن “ کا انتقال ہو گیا ہے پھر یہی قصہ بیان کیا، یحییٰ اور سعید اور ابومعاویہ نے کہا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عر ض کی کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور عبید اللہ نے بیان کیا، ان سے زید ابن ابی انیسہ نے، ان سے حکم نے، ان سے سعید بن جبیر نے او ران سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور ان پر نذر کا ایک روزہ واجب تھا اور ابوحریز عبداللہ بن حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عر ض کی کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور ان پر پندرہ دن کے روزے واجب تھے۔
حدیث حاشیہ:
ان سندوں کے بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ اس حدیث میں بہت سے اختلافات ہیں، کوئی کہتا ہے پوچھنے والا مرد تھا، کوئی کہتا ہے کہ عورت نے پوچھا تھا، کوئی ایک مہینے کے کوئی پندرہ دن کے روزے کہتا ہے کوئی نذر کا روزہ کہتا ہے اسی لیے نذر کا روزہ امام احمد اور لیث نے میت کی طرف سے رکھنا درست کہا ہے اور رمضان کا روزہ رکھنا درست نہیں رکھا ( جب یہ قول صحیح نہیں۔ میت کی طرف سے باقی روزے رکھنے ضروری ہیں ) میں کہتا ہوں کہ ان اختلاف سے حدیث میں کوئی نقص نہیں آتا جب اس کے روای ثقہ ہیں ممکن ہے یہ مختلف واقعات ہوں اور پوچھنے والے متعدد ہوں۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): A man came to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! My mother died and she ought to have fasted one month (for her missed Ramadan). Shall I fast on her behalf?" The Prophet (ﷺ) replied in the affirmative and said, "Allah's debts have more right to be paid." In another narration a woman is reported to have said, "My sister died..." Narrated Ibn 'Abbas (RA): A woman said to the Prophet (ﷺ) "My mother died and she had vowed to fast but she didn't fast." In another narration Ibn 'Abbas (RA) is reported to have said, "A woman said to the Prophet, "My mother died while she ought to have fasted for fifteen days."