باب : آنحضرت ﷺ کے اعتکاف کا اور بیسویں کی صبح کو آپ کا اعتکاف سے نکلنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Retiring to a Mosque for Remembrance of Allah (I'tikaf)
(Chapter: Coming out of I'tikaf in the morning of the twentieth (of Ramadan))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2036.
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے دریافت کیا: کیا آپ نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو شب قدر کا ذکر کرتے سنا ہے؟انھوں نے فرمایا: ہاں، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا۔ ہم بیسویں رمضان کی صبح کو اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بیسویں کی صبح خطاب کرتے ہوئے فرمایا؛ ’’مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر اسے بھلا دیاگیا، اس لیے تم اسے آخری عشرے کی طاق ر اتوں میں تلاش کرو۔ چونکہ میں نے(خواب میں) دیکھا ہے کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں، اس لیے جس نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف کیا تھا وہ واپس اپنے معتکف میں آجائے۔‘‘ لوگ یہ سن کر مسجد میں واپس آگئے۔ ہم نے آسمان پر ذرہ بھر بھی بادل نہ دیکھے تھے کہ اچانک تھوڑا سا بادل آیا اور وہ خوب برسا۔ اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے کیچڑ اور پانی میں سجدہ کی حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ناک اور پیشانی مبارک پر مٹی کے نشانات دیکھے۔
تشریح:
امام مالک نے جب اس روایت کو بیان کیا ہے تو بایں الفاظ ذکر کیا ہے: ہم ایک سال رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف میں تھے، جب اکیسویں رات آئی جس کی صبح کو آپ اعتکاف گاہ سے نکلے تھے۔ (صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث:2018) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: اکیسویں رات کی صبح سے مراد بیسویں دن کی صبح ہے، یعنی بیسویں روزے کی صبح جس کے بعد آنے والی رات اکیسویں تھی۔ بعض اوقات کسی چیز کے ماقبل کو اس کی طرف مضاف کر دیا جاتا ہے۔ کلام عرب میں یہ اسلوب بھی مستعمل ہے۔ (فتح الباري:356/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1976
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2036
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2036
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2036
تمہید کتاب
لغوی طور پر اعتکاف کے معنی "بند رہنا، رکے رہنا اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا" ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: (مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾) (الانبیآء52:21) "یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ان کی کیا حیثیت ہے؟" ایک دوسرے مقام پر یہ لفظ بایں طور استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ) (الاعراف138:7) "وہ لوگ اپنے چند بتوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔" شرعی اصطلاح میں اعتکاف کرنے کا مطلب "آدمی کا ایک خاص کیفیت کے ساتھ خود کو مسجد میں روک لینا ہے۔" رمضان میں اعتکاف یہ ہے کہ انسان رمضان کے آخری دس دن اور راتیں عبادت میں گزار دے اور دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ان دنوں کو اللہ کے ذکر کے لیے خاص کر دے۔ اعتکاف سنت ہے لیکن اگر کوئی اسے نذر کے ذریعے سے اپنے اوپر لازم کرے تو پھر واجب ہو جاتا ہے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ:4/456) علامہ البانی رحمہ اللہ نے مسائل اعتکاف پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اہم اپنی تمہیدی گزارشات میں اسے نقل کرتے ہیں تاکہ اس سے استفادہ عام ہو۔ واللہ المستعان٭ مشروعیت اعتکاف: سال کے تمام دنوں (رمضان اور غیر رمضان) میں اعتکاف کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کرنا ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ماہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2045) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ نے انہیں فرمایا: "اپنی نذر پوری کرو۔" (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) البتہ ماہ رمضان میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ فوت ہوئے ہیں اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) تاہم افضل یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2784(1172))٭ شروط اعتکاف: اعتکاف کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ) (البقرۃ187:2) "اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔" اگر مسجد کے علاوہ اعتکاف جائز ہوتا تو ازدواجی تعلقات کی حرمت کو مسجد سے متعلق نہ کیا جاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: "معتکف کے لیے مسنون ہے کہ وہ ضروری حاجت کے علاوہ مسجد سے نہ نکلے اور نہ کسی بیمار کی تیمارداری ہی کرے، اس دوران میں اپنی بیوی سے بوس و کنار اور مباشرت نہ کرے، اسی طرح ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہو۔ معتکف کے لیے روزہ رکھنا بھی سنت ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/315) دوسری شرط یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں جمعہ ادا ہوتا ہو تاکہ اس کی ادائیگی کے لیے معتکف کو مسجد سے نکل کر دوسری مسجد میں نہ جانا پڑے کیونکہ جمعہ ادا کرنا ضروری ہے۔ صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اعتکاف ایسی مسجد میں ہونا چاہیے جہاں جمعہ کا اہتمام ہو۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473) معتکف کے لیے روزہ رکھنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ معتکف کے لیے بحالت روزہ ہونا مسنون ہے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473)٭ مباحات اعتکاف: معتکف انسانی حاجت کے لیے اپنی اعتکاف گاہ اور مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اسی طرح سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے لیے اپنا سر بھی مسجد سے باہر نکال سکتا ہے۔ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بحالت اعتکاف اپنا سر مبارک باہر نکالتے اور میں اپنے حجرے میں بحالت حیض آپ کے سر میں کنگھی کرتی۔ایک روایت میں ہے: میں آپ کا سر دھوتی۔ میرے اور آپ کے درمیان دروازے کی چوکھٹ ہوتی۔ اور آپ جب معتکف ہوتے تو ضروری حاجت کے علاوہ گھر میں داخل نہ ہوتے۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2029) معتکف کے لیے مسجد کے اندر وضو کرنا بھی جائز ہے۔ ایک صحابی کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بحالت اعتکاف) مسجد میں ہلکا سا وضو فرمایا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/322) اعتکاف کے لیے مسجد کے پچھلے حصے میں خیمہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے چھوٹا سا ایک خیمہ لگا دیا جاتا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2033) اور خیمہ لگانے کا اہتمام آپ کے حکم سے ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2785(1173))اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ معتکف اطمینان و سکون سے اللہ کی عبادت میں لگا رہے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف میں سادگی برقرار رکھتے تھے۔ اس کے برعکس وہ جہلاء جنہیں شہرت اور نمائش و پارسائی مقصود ہوتی ہے وہ اعتکاف بیٹھنے کے لیے دس آدمیوں کی جگہ گھیر لیتے ہیں اور عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ واللہ المستعان۔ معتکف کے لیے مسجد میں بستر یا چارپائی بھی بچھائی جا سکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے تو آپ کے لیے "توبہ کے ستون" کے پیچھے بستر لگا دیا جاتا یا چارپائی بچھا دی جاتی۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2038)٭ معتکف سے ملاقات: اعتکاف گاہ میں عورت اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے آ سکتی ہے، اسی طرح خاوند بھی مسجد کے دروازے تک اسے چھوڑنے جا سکتا ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں معتکف تھے اور آپ کے پاس دیگر ازواج بھی موجود تھیں۔ میں نے چند گھڑیاں آپ سے گفتگو میں مصروف رہنے کے بعد واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: "جلدی نہ کرنا، میں تمہیں چھوڑنے جاتا ہوں۔" پھر آپ مجھے چھوڑنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حویلی میں تھا۔) جب آپ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچے جہاں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا دروازہ تھا تو آپ نے انصار کے دو آدمیوں کو دیکھا، انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ آپ نے انہیں ٹھہرنے کے لیے آواز دی اور فرمایا: "یہ عورت میری بیوی صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا ہے۔" انہوں نے آپ کی وضاحت سن کر کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! ہم آپ کے متعلق غلط بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر آپ نے فرمایا: "شیطان کی وسوسہ اندازی یوں سرایت کر جاتی ہے جیسا کہ انسان کے رگ و ریشے میں خون چلتا ہے اور مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برا خیال آ جائے۔" (سنن ابن ماجہ،الصیام،حدیث:1774)٭ عورت کے لیے اعتکاف: عورت اکیلی یا اپنے خاوند کے ہمراہ مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک مستحاضہ (جسے بیماری کی وجہ سے خون آتا ہو) عورت نے آپ کے ہمراہ اعتکاف کیا اور اسے مخصوص ایام کے علاوہ خون آ جاتا، بعض اوقات دوران نماز میں اس کی حالت غیر ہو جاتی، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی انتظام کرنا پڑتا، یعنی کوئی برتن وغیرہ وہاں رکھ دیا جاتا تاکہ مسجد، خون سے آلودہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری،الحیض،حدیث:310) ایک روایت میں ہے کہ وہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے، زندگی بھر آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2026) اس حدیث سے عورت کے لیے اعتکاف کرنے کا جواز مطلق نہیں بلکہ اپنے خاوند یا دوسرے سرپرست کی اجازت پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ حالات سازگار ہوں۔ وہاں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ یا دیگر غیر محارم سے خلوت کا خطرہ نہ ہو۔ مذکورہ شرائط شریعت کے بے شمار دلائل کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک فقہی اصول بھی ہے کہ مفاسد کو روکنا حصول منافع پر مقدم ہوتا ہے، لہذا ان تمام شرائط کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعتکاف سے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے "کتاب الاعتکاف" میں بائیس متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے اور ان پر انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جنہیں ہم آئندہ ترجمہ و فوائد کے ساتھ بیان کریں گے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔ صرف معلومات میں اضافے کے لیے انہیں پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے دریافت کیا: کیا آپ نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو شب قدر کا ذکر کرتے سنا ہے؟انھوں نے فرمایا: ہاں، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا۔ ہم بیسویں رمضان کی صبح کو اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بیسویں کی صبح خطاب کرتے ہوئے فرمایا؛ ’’مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر اسے بھلا دیاگیا، اس لیے تم اسے آخری عشرے کی طاق ر اتوں میں تلاش کرو۔ چونکہ میں نے(خواب میں) دیکھا ہے کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں، اس لیے جس نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف کیا تھا وہ واپس اپنے معتکف میں آجائے۔‘‘ لوگ یہ سن کر مسجد میں واپس آگئے۔ ہم نے آسمان پر ذرہ بھر بھی بادل نہ دیکھے تھے کہ اچانک تھوڑا سا بادل آیا اور وہ خوب برسا۔ اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے کیچڑ اور پانی میں سجدہ کی حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ناک اور پیشانی مبارک پر مٹی کے نشانات دیکھے۔
حدیث حاشیہ:
امام مالک نے جب اس روایت کو بیان کیا ہے تو بایں الفاظ ذکر کیا ہے: ہم ایک سال رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف میں تھے، جب اکیسویں رات آئی جس کی صبح کو آپ اعتکاف گاہ سے نکلے تھے۔ (صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث:2018) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: اکیسویں رات کی صبح سے مراد بیسویں دن کی صبح ہے، یعنی بیسویں روزے کی صبح جس کے بعد آنے والی رات اکیسویں تھی۔ بعض اوقات کسی چیز کے ماقبل کو اس کی طرف مضاف کر دیا جاتا ہے۔ کلام عرب میں یہ اسلوب بھی مستعمل ہے۔ (فتح الباري:356/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ہارون بن اسماعیل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے سنا، انہوں نے کہامیں نے ابو سعید خدری ؓ سے سنا، میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے شب قدر کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا تھا، ابوسعید ؓ نے بیان کیا کہ پھر بیس کی صبح کو ہم نے اعتکاف ختم کر دیا۔ اسی صبح کو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا کہ مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی، لیکن پھر بھلا دی گئی، اس لیے اب اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے ( خواب میں ) دیکھا ہے کہ میں کیچڑ، پانی میں سجدہ کر رہا ہوں او رجن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ( اس سال ) اعتکاف کیا تھا وہ پھر دوبارہ کریں۔ چنانچہ وہ لوگ مسجد میں دوبارہ آگئے۔ آسمان میں کہیں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا کہ اچانک بادل آیا اور بارش شروع ہو گئی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی اورر سول اللہ ﷺ نے کیچڑ میں سجدہ کیا۔ میں نے خود آپ کی ناک اور پیشانی پر کیچڑ لگا ہوا دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salama bin 'Abdur-Rahman (RA): I asked Abu Sa'id Al-Khudri(RA), "Did you hear Allah's Apostle (ﷺ) talking about the Night of Qadr?" He replied in the affirmative and said, "Once we were in Itikaf with Allah's Apostle (ﷺ) in the middle ten days of (Ramadan) and we came out of it in the morning of the twentieth, and Allah's Apostle- delivered a sermon on the 20th (of Ramadan) and said, 'I was informed (of the date) of the Night of Qadr (in my dream) but had forgotten it. So, look for it in the odd nights of the last ten nights of the month of Ramadan. I saw myself prostrating in mud and water on that night (as a sign of the Night of Qadr). So, whoever had been in Itikaf with Allah's Apostle (ﷺ) should return for it.' The people returned to the mosque (for Itikaf). There was no trace of clouds in the sky. But all of a sudden a cloud came and it rained. Then the prayer was established (they stood for the prayer) and Allah's Apostle (ﷺ) prostrated in mud and water and I saw mud over the forehead and the nose of the Prophet.