Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: Whoever sees that promises should be fulfilled)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کو پورا کردیا ۔ اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس وصف سے کیا ہے کہ وہ وعدے کے سچے تھے ۔ اور سعید بن الاشوع نے وعدہ پورا کرنے کے لیے حکم دیا تھا ۔ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نقل کیا ، اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ اپنے ایک داماد ( ابوالعاص ) کا ذکر فرمارہے تھے ، آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا ، ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا کہ اسحاق بن ابراہیم کو میں نے دیکھا کہ وہ وعدہ پورا کرنے کے وجوب پر ابن اشوع کی حدیث سے دلیل لیتے تھے ۔ امام بخاری اور بعض علماءکا یہی قول ہے کہ وعدہ پورا کرنا چاہئے، اگر کوئی نہ کرے تو قاضی پورا کرائے گا۔ لیکن جمہور علماءکہتے ہیں کہ وعدہ پورا کرنا مستحب ہے اور اخلاقاً ضروری ہے۔ پر قاضی جبراً اسے پورا نہیں کراسکتا۔ ازروئے درایت امام بخاری ہی کا قول صحیح ہے کہ عدالت فیصلہ کرتے وقت ایک حکم جاری کرتی ہے گویامدعیٰ علیہ سے وعدہ لیتی ہے کہ وہ عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے گویا اس پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ کررہا ہے۔ اب گھر جاکر وہ اس حکم پر عمل نہ کرے اور مدعی کو کورا جواب دے تو عدالت پولیس کے ذریعہ اپنے فیصلہ کا نفاذ کرائے گی۔ حضرت امام کا یہی منشا ہے اور دنیا کا یہی قانون ہے۔ اسی مقصد سے حضرت امام بخاری نے کئی احادیث اور آثار نقل کردئیے ہیں۔ اگر عدالتی حکم کو کوئی شخص جاری نہ ہونے دے اور تسلیم کے وعدے سے پھر جائے اور عدالت کچھ نہ کرسکے تو یہ محض ایک تماشہ بن کر رہ جائے گا۔
2683.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی کریم ﷺ فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حضرت علاء بن حضرمی ؓ کی طرف سے مال آیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: جس شخص کا نبی کریم ﷺ کے ذمے قرض ہو یا اس سے آپ نے کوئی وعدہ کیا ہوتو وہ ہمارے پاس آئے۔ حضرت جابر ؓ نے کہا: میں نے حضرت ابوبکر ؓ سے عرض کیا: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے اتنا اتنا مال دیں گے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ تین مرتبہ پھیلائے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے میرے ہاتھ میں پانچ سو، پھر پانچ سو، پھر پانچ سو درہم دیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2588
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2683
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2683
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2683
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
وعدہ بھی خود پر ایک قسم کی گواہی ہے، اس لیے کتاب الشہادات میں وعدے کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ مالی معاملات میں عدالت کا عام طور پر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ مال کی ادائیگی یا مال کی واپسی کے لیے مدعی یا مدعا علیہ عدالت کے روبرو وعدہ کرے کہ اسے مال ادا کروں گا یا غصب کیا ہوا مال واپس کروں گا۔ اس قسم کے وعدے کو پورا کرنا اہم ذمے داری ہے۔ اسے ہر صورت میں پورا کرنا چاہیے۔ اگر کوئی بروقت مال ادا یا واپس نہیں کرتا تو عدالت کو مداخلت کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ عدالت فیصلہ کرتے وقت اگر مدعا علیہ سے وعدہ لیتی ہے کہ اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرے، اب وہ عدالت سے باہر جا کر اس کا انکار کر دیتا ہے تو عدالت کو چاہیے کہ وہ قانونی طور پر اس پر عمل درآمد کرائے۔ اس مقصد کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد آثار ذکر کیے ہیں۔ اس سے عام وعدہ پورا کرنا مراد نہیں بلکہ عدالتی فیصلے کے مطابق جو وعدہ کیا گیا ہو وہ مراد ہے۔ اگر کوئی دولت کے بل بوتے پر عدالتی وعدہ پورا نہ کرے اور عدالت کوئی نوٹس نہ لے تو قانون ایک تماشا بن جائے گا۔ آئندہ احادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کو ثابت کیا ہے۔ واللہ اعلم
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کو پورا کردیا ۔ اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس وصف سے کیا ہے کہ وہ وعدے کے سچے تھے ۔ اور سعید بن الاشوع نے وعدہ پورا کرنے کے لیے حکم دیا تھا ۔ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نقل کیا ، اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ اپنے ایک داماد ( ابوالعاص ) کا ذکر فرمارہے تھے ، آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا ، ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا کہ اسحاق بن ابراہیم کو میں نے دیکھا کہ وہ وعدہ پورا کرنے کے وجوب پر ابن اشوع کی حدیث سے دلیل لیتے تھے ۔ امام بخاری اور بعض علماءکا یہی قول ہے کہ وعدہ پورا کرنا چاہئے، اگر کوئی نہ کرے تو قاضی پورا کرائے گا۔ لیکن جمہور علماءکہتے ہیں کہ وعدہ پورا کرنا مستحب ہے اور اخلاقاً ضروری ہے۔ پر قاضی جبراً اسے پورا نہیں کراسکتا۔ ازروئے درایت امام بخاری ہی کا قول صحیح ہے کہ عدالت فیصلہ کرتے وقت ایک حکم جاری کرتی ہے گویامدعیٰ علیہ سے وعدہ لیتی ہے کہ وہ عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے گویا اس پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ کررہا ہے۔ اب گھر جاکر وہ اس حکم پر عمل نہ کرے اور مدعی کو کورا جواب دے تو عدالت پولیس کے ذریعہ اپنے فیصلہ کا نفاذ کرائے گی۔ حضرت امام کا یہی منشا ہے اور دنیا کا یہی قانون ہے۔ اسی مقصد سے حضرت امام بخاری نے کئی احادیث اور آثار نقل کردئیے ہیں۔ اگر عدالتی حکم کو کوئی شخص جاری نہ ہونے دے اور تسلیم کے وعدے سے پھر جائے اور عدالت کچھ نہ کرسکے تو یہ محض ایک تماشہ بن کر رہ جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی کریم ﷺ فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حضرت علاء بن حضرمی ؓ کی طرف سے مال آیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: جس شخص کا نبی کریم ﷺ کے ذمے قرض ہو یا اس سے آپ نے کوئی وعدہ کیا ہوتو وہ ہمارے پاس آئے۔ حضرت جابر ؓ نے کہا: میں نے حضرت ابوبکر ؓ سے عرض کیا: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے اتنا اتنا مال دیں گے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ تین مرتبہ پھیلائے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے میرے ہاتھ میں پانچ سو، پھر پانچ سو، پھر پانچ سو درہم دیے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
امام حسن بصرینے اپنے وعدے کے مطابق عمل کرکے دکھایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "نیز اس کتاب میں حضرت اسماعیل ؑ کا قصہ بیان کیجئے وہ وعدے کے سچے(اور رسول نبی ) تھے۔ "ابن اشوع نے وعدہ کرنے کے متعلق فیصلہ کیا اور حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے اسی طرح نقل کیا۔ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺسے سنا، آپ اپنے ایک داماد کا ذکر کررہے تھے۔ آپ نے فرمایا: "اس نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا۔ "ابو عبداللہ(امام بخاری ) کہتے ہیں: میں نے اسحاق بن ابراہیم کو دیکھا وہ وعدہ پورا کرنے کے وجوب پر ابن اشوع کی حدیث سے دلیل لیتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہمیں ہشام نے خبردی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں عمرو بن دینار نے خبر دی، انہیں محمد بن علی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا، کہا نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کے پاس (بحرین کے عامل) علاء بن حضرمی ؓ کی طرف سے مال آیا۔ ابوبکر ؓ نے اعلان کرادیا کہ جس کسی کا بھی نبی کریم ﷺ پر کوئی قرض ہو، یا آنحضرت ﷺ کا اس سے وعدہ ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ جابر ؓ نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ ﷺ اتنا مال مجھے عطا فرمائیں گے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے تین مرتبہ اپنے ہاتھ بڑھائے اور میرے ہاتھ پر پانچ سو پھر پانچ سو اور پھر پانچ سو گن دئیے۔
حدیث حاشیہ:
گویا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عہد نبوی کو پورا کر دکھایا، اس سے بھی یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ وعدہ کو پورا کرنا ہی ہوگا۔ خواہ بذریعہ عدالت ہی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Ali (RA): Jabir bin Abdullah (RA) said, "When the Prophet (ﷺ) died, Abu Bakr (RA) received some property from Al-Ala bin Al-Hadrami. Abu Bakr (RA) said to the people, "Whoever has a money claim on the Prophet, or was promised something by him, should come to us (so that we may pay him his right)." Jabir added, "I said (to Abu Bakr), Allah's Apostle (ﷺ) promised me that he would give me this much, and this much, and this much (spreading his hands three times)." Jabir added, " Abu Bakr (RA) counted for me and handed me five-hundred (gold pieces), and then five-hundred, and then five-hundred."